Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی بھی شخص کسی کی طرف سے بھی کچھ ادائیگی نہیں کریگا۔ اور نہ کسی شخص کی طرف سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی۔ اور نہ کسی شخص کی طرف سے کوئی معاوضہ لیاجائے گا، اور نہ ان لوگوں کی مدد کی جائے گی۔
قیامت کے دن نفسا نفسی ان دونوں آیتوں میں بھی بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا، اور مکرر اپنی نعمتوں کی یاد دہانی فرمائی۔ ان میں سے بہت سی نعمتوں کا تذکرہ آئندہ آیات میں آنے والا ہے۔ یہ جو فرمایا : (وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) (کہ میں نے تم کو فضیلت دی جہانوں پر) اس سے ان کے آباء و اجداد مراد ہیں۔ جن میں انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی تھے اور وہ علماء صلحا بھی تھے جنہوں نے اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھاما تھا اور جنہوں نے دین خداوندی میں کسی قسم کی تحریف اور تغییر نہیں کی تھی۔ ایمان اور اعمال صالحہ سے متصف تھے اور جن پر فضیلت دینے کا ذکر ہے، ان سے ان کے زمانے کے لوگ مراد ہیں۔ تمام عالم کے انسان اگلی پچھلی اقوام و افراد مراد نہیں ہیں۔ حضرت سرور عالم ﷺ تمام انبیاء ومرسلین سے افضل ہیں اور آپ کی امت ساری امتوں سے افضل ہے جس کی تصریح (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) میں اور (وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا) میں فرمائی ہے۔ اپنے زمانہ میں بنی اسرائیل کو دوسری اقوام پر فضیلت اور برتری حاصل تھی۔ کیونکہ ان میں حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) ہوتے تھے اور ان کے ماننے والے بھی ہوتے تھے اور اعمال صالحہ والے بھی موجود تھے۔ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا خاتم النّبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے درمیان جو فترت کا زمانہ ہے (اور یہ زمانہ چھ سو سال کے لگ بھگ تھا) اس میں علماء یہود نے توریت شریف میں تحریف کردی اور دین خداوندی کو بدل دیا پھر جب حضرت خاتم النبیین ﷺ کی بعثت ہوئی اور علماء یہود نے پہچان بھی لیا کہ آپ وہی نبی ہیں جن کے آنے کا ہمیں انتظار تھا تو آپ کی نبوت اور رسالت کے منکر ہوگئے۔ تحریف و تغییر و انکار نبوت نبی آخر الزمان ﷺ کی وجہ سے اپنی ہر طرح کی فضیلت کھو بیٹھے، اور اب نہ صرف یہ کہ کفر اختیار کرنے والے بن گئے، بلکہ دین اسلام کے دشمن بن کر مستقل طریقہ پر مغضوب علیہم کی سند لے لی۔ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) کی نسل سے ہیں مگر کفر کے ساتھ نسب کوئی کام نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ بڑا بےنیاز ہے۔ وہ ہر کافر کو دوزخ میں بھیج دے گا کسی کی بھی اولاد ہو۔ یہودیوں کی دنیا طلبی، حب مال، حب جاہ اور اس بات کا حسد کہ نبی ہم میں سے کیوں نہ آیا، عربوں میں سے کیوں آیا ان چیزوں نے ان کو برباد کردیا۔ قرآن مجید نے خطاب کر کے ان سے فرمایا کہ دنیا کو نہ دیکھو، آخرت پر نظر کرو۔ اموال و اولاد اور قوم اور قبیلہ قیامت کے دل بالکل کام نہیں آسکتا، وہاں نہ کوئی جان کسی کی طرف سے کوئی حق ادا کرسکے گی ( یہ نہ ہو سکے گا کہ کوئی شخص کسی کی طرف سے قرضہ دے دے یا کسی طرح کا کوئی اور حق چکا دے، اور یہ نہ ہو سکے گا کہ کوئی کسی کی طرف سے عذاب بھگت لے۔ ) جن کی شفاعت کی اجازت ہوگی وہی سفارش کرسکیں گے : کوئی سفارش قبول نہ کی جائے گی، بلکہ کوئی شخص کسی کے لیے سفارش کر ہی نہ سکے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جن حضرات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت ہوگی اور جن کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، انہی کے بارے میں قبول ہوگی۔ اور کافروں کے لیے کوئی سفارش کرنے والا نہ ہوگا اور نہ ان کے لیے سفارش کی اجازت ہوگی۔ (قال اللّٰہ تعالیٰ شانہ) فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ (و قال اللّٰہ تعالٰی) مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلاَ شَفِیعٍ یُّطَاعُ (و قال تعالٰی) یَوْمَءِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًا (و قال تعالٰی) مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ) وہاں عذاب سے جان چھڑانے کے لیے کوئی معاوضہ یا فدیہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس کچھ ہوگا ہی نہیں جو جان کا بدلہ دے کر عذاب سے جان چھڑائے اور بالفرض کوئی دینا بھی چاہے تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور جس کے لیے عذاب کا فیصلہ ہوگیا اسے عذاب ہی میں رہنا ہوگا۔ سورۂ آل عمران میں فرمایا : (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ ھُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْ ءُ الْاَرْضِ ذَھَبً وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ) ” جو لوگ کافر ہوئے اور مرگئے کافر ہی، تو ہرگز قبول نہ ہوگا کسی ایسے شخص سے زمین بھر کر سونا۔ اگرچہ فدیہ دے اس قدر سونے کا، ان کیلئے عذاب درد ناک ہے اور کوئی نہیں ہوگا، ان کا مدد گار۔ “ اور سورة مائدہ میں فرمایا : (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْھُمْ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ) ” جو لوگ کافر ہیں اگر ان کے پاس جو کچھ زمین میں ہے وہ سب ہو اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہوتا کہ بدلہ میں دیں قیامت کے عذاب سے بچنے کے لیے تو ان سے قبول نہ ہوگا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “ آخر میں فرمایا (وَ لاَ ھُمْ یُنْصَرُوْنَ ) اور روز قیامت ان لوگوں کی مدد نہ کی جائے گی۔ اول اس بات کی نفی کی گئی کہ کوئی کسی کے کام آئے۔ پھر سفارش کی نفی کی گئی پھر جان کا بدلہ قبول کئے جانے کی نفی کی گئی پھر ہر طرح کی مدد کی نفی کردی گئی۔
Top