Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور البتہ تحقیق تم نے ان لوگوں کو جان لیا جنہوں نے سنیچر کے دن میں زیادتی کی، سو ہم نے کہا ہوجاؤ بندر ذلیل !
یہودیوں کا سنیچر کے دن میں زیادتی کرنا اور بندر بنا دیا جانا جیسے مسلمانوں کے لیے جمعہ کا دن معظم قرار دیا گیا ہے اسی طرح سے یہود کے لیے سنیچر کے دن کو معظم قرار دیا گیا تھا۔ اور اس کی تعظیم کے لیے یہ حکم بھی تھا کہ اس دن مچھلی کا شکار نہ کریں ایک طرف تو یہ حکم تھا اور دوسری طرف ان کا امتحان تھا اور وہ امتحان اس طرح تھا کہ دوسرے دنوں میں مچھلیاں عام حالات کے مطابق پانی میں اندر ہی رہتی تھیں اور سنیچر کے دن خوب ابھر ابھر کر پانی پر آجاتی تھیں جس کا تذکرہ سورة اعراف کی آیت (وَسْءَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ ) میں فرمایا ہے چونکہ سنیچر کے دن مچھلیاں خوب ابھر کر سامنے آجاتی تھیں اس لیے ان لوگوں نے ان کو پکڑنے کے لیے حیلے نکالے اور یہ کہا کہ سنیچر کا دن آنے سے پہلے جال اور مچھلی پکڑنے کے کانٹے پہلے سے پانی میں ڈال دیتے تھے۔ چناچہ وہ ان میں پھنس کر رہ جاتی تھیں جب سنیچر کا دن گزر جاتا تھا تو ان کو پکڑ لیتے تھے اور اپنے نفسوں کو سمجھا لیتے تھے کہ ہم نے سنیچر کے دن ایک مچھلی بھی نہیں پکڑی وہ تو خود سے جالوں میں اور کانٹوں میں آگئیں اور یہ جال اور کانٹے ہم نے جمعہ کے دن ڈالے تھے ان کو منع کرنے والوں نے منع کیا تو نہ مانے لہٰذا اللہ پاک کی طرف سے ان پر یہ عذاب آیا کہ ان کو بندر بنا دیا گیا۔ جب یہ لوگ بندر بنا دیے گئے تو بندروں کی طرح آوازیں نکالتے تھے ان کی دمیں بھی پیدا ہوگئیں جو لوگ ان کو منع کرتے تھے وہ ان کے پاس گئے اور کہا کہ کیا ہم نے تم کو منع نہیں کیا تھا تو وہ سر ہلا کر جواب دیتے تھے۔ سورۃ مائدہ میں فرمایا (وَ جَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَ الْخَنَازِیْرَ ) اس میں بتایا ہے کہ بندر اور خنزیر بنا دیے گئے یہ خنزیر بنا دینے کا واقعہ اسی واقعہ سے متعلق ہے جبکہ سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنے کے جرم میں بندر بنا دیے گئے تھے یا اور کسی موقعہ سے متعلق ہے۔ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں ملی۔ البتہ تفسیر ابن کثیر میں آیت بالا (وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ ) کے ذیل میں حضرت ابن عباس نے نقل کیا ہے کہ سنیچر کے دن زیادتی کرنے والے بندر بنا دیے گئے اور خنزیر بھی، ان میں جو جوان تھے وہ بندر ہوگئے اور جو بوڑھے تھے وہ خنزیر بنا دیے گئے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ جو قوم مسخ ہوئی ہے وہ مسخ شدہ حالت میں تین دن سے زیادہ نہیں رہی ان تین دنوں میں انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں اور ان کی نسل بھی نہیں چلی۔ یہ جو بندروں اور خنزیروں کی نسلیں ہیں مسخ شدہ قوموں کی نسلیں نہیں ہیں بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مستقل مخلوق ہے۔ الجامع الصغیر میں بروایت حضرت ام سلمہ ؓ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے۔ مَا مسخ اللّٰہ تعالیٰ من شیء فکان لہ عقب و لا نسل رمزلہ السیوطی بالحسن قال الھیثمی فیہ لیث بن سلیم مدلس و بقیۃ رجالہ رجال الصحیح۔ (کما فی فیض القدیر ص 466 ج 5) اس واقعہ کی مزید تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ سورة اعراف میں بیان ہوگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاصی کی وجہ سے کئی طرح سے عذاب آتا رہا ہے ان میں سے ایک طریقہ صورتیں مسخ کر کے ہلاک کرنے کا بھی تھا امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ اب تک مسخ کے عذاب سے محفوظ چلی آرہی ہے لیکن قرب قیامت میں مسخ ہوگا۔ جیسا کہ سنن الترمذی کتاب الفتن میں حدیث اذا اتخذ الفئی دولا کے آخر میں تصریح ہے اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں بھی مسخ کیے جانے کا ذکر ہے (مشکوٰۃ ص 456) ؛ جتنے بھی عذاب آئے سب میں عبرت ہے ان لوگوں کے لیے بھی جو عذاب کے وقت موجود تھے اور ان کے لیے بھی جو بعد میں آنے والے ہیں اور ان عذابوں میں نصیحت بھی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے خاص کر یہ مسخ کا عذاب تو بہت ہی زیادہ عبرت ناک ہے ہلاک تو ہو ہی گئے لیکن ہلاکت سے پہلے تین دن جو بندر رہے اس میں سب کے لیے بہت بڑی عبرت اور نصیحت ہے اسی لیے فرمایا کہ ہم نے اس کو عبرت بنا دیا ان لوگوں کے لیے جو اس وقت موجود تھے اور جو بعد میں آنے والے ہیں اور نصیحت بنا دیا ڈرنے والوں کے لیے فَجَعَلْنٰھَا کی ضمیر عقوبت کی طرف یا قریٰ کی طرف راجع ہے جس سے اہل قریٰ مراد ہیں (لِمَا بَیْنَ یَدَیْھَا وَمَا خَلْفَھَا) کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر بیضاوی لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں ان کو مسخ کرنے کی سزا دی گئی اس زمانہ کے لوگوں کے لیے اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت ہوجائے اور ایک معنی یہ لکھا ہے کہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہاں کے قریب کی بستیوں اور دور کی بستیوں کے لیے عبرت ہوجائے۔ حضرت ابن عباس سے بھی یہ دوسرا معنی منقول ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ عن ابن عباس لما بین یدھا من القری و ما خلفھا من القری۔ اس کے بعد حضرت ابو العالیہ کا قول نقل کیا ہے۔ و ما خلفھا لما بقی ما بعد ھم من الناس من بنی اسرائیل ان یعملوا مثل عملھم۔ یعنی ماخلفھا سے وہ بنی اسرائیل مراد ہیں جو اس عبرت ناک واقعہ کے بعد باقی رہے یہ واقعہ ان کے لیے عبرت ہے تاکہ اپنے اسلاف جیسا عمل نہ کریں۔ حضرت حسن اور قتادہ ؓ نے مَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ کے بارے میں فرمایا کہ ان لوگوں کے بعد میں جو آنے والے ہیں ان کے لیے نصیحت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈریں گے اور خوف کھائیں گے اور عطیہ عوفی نے کہا ہے کہ المتقین سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی امت مراد ہے۔ مفسر ابن کثیر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان چیزوں کا ارتکاب نہ کرو جن کا یہودیوں نے ارتکاب کیا حیلوں کے ذریعہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت کرلو۔ (وہذا اسناد جید) یہود نے ایک اور بھی حیلہ کیا اور وہ یہ کہ ان پر چربی حرام کردی گئی تھی۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اس کو انہوں نے اچھی صورت میں بنا کر بیچ دیا۔ (بخاری و مسلم کما فی مشکوۃ ص 241) شراح حدیث نے اچھی صورت میں بنانے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ چربی کو انہوں نے پگھلا دیا اور اس میں کچھ ملا کر دوسرا کوئی نام رکھ کر اس کو بیچ دیا۔ اور اس کی قیمت کھا گئے۔ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ میں اس طرح کے حیلے رواج پا گئے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ لوگ شراب کو حلال کرلیں گے عرض کیا وہ کیسے ہوگا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حرمت واضح طور پر نازل فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یسمونھا بغیر اسمھا فیستحلونھا یعنی وہ شراب کا دوسرا نام رکھ لیں گے اور اس طرح اس کو حلال کرلیں گے۔ (رواہ الدارمی مشکوۃ ص 461) چنانچہ آج کل ایسی باتیں سننے میں آرہی ہیں، شراب پیتے ہیں، نام دوسرا رکھ لیا ہے۔ سود لیتے ہیں اس کا نام نفع رکھ لیا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کیلئے تدبیریں کرلیتے ہیں۔ تصویریں اور مورتیاں حلال کرنے کے لیے حیلے تراشتے ہیں۔ ڈاڑھی مونڈنے کے جواز کے لیے حجتیں نکالتے ہیں۔ ایسے حیلوں اور بہانوں کی تفصیلات بہت ہیں۔
Top