Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لیے اس کی گنجائش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے دیں تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی رہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہوجائے تو اس پر عمل کرنا لازم ہے، خلاف ورزی کرنا جائز نہیں عرب میں یہ دستور تھا کہ دوسروں کی اولاد کو بیٹا بنالیا کرتے تھے اور جو شخص بیٹا بناتا تھا اسی کی طرف نسبت کرکے اِبْنِ فُلاَنٍ کہتے تھے، اور ایک رواج یہ بھی تھا کہ لوگ چلتے پھرتے کسی بچہ کو لے کر کسی شہر میں لے جاتے جہاں کوئی پہچانتا نہ ہوتا وہاں اسے اپنا غلام بنا کر بیچ دیتے تھے۔ زید بن حارثہ ؓ کا تعارف زید بن حارثہ ؓ اپنی والدہ کے ساتھ ننھیال جا رہے تھے کہ کچھ لوگوں نے ان پر قبضہ کرلیا جبکہ ان کی عمر آٹھ سال تھی، پھر انہیں مکہ معظمہ لے آئے اور سوق بنی عکاظ میں (جو مکہ معظمہ کے قریب ایک بازار لگتا تھا) میں اپنا غلام بتا کر فروخت کردیا، حکیم بن حزام بن خویلد نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ ؓ کے لیے چار سو درہم میں خرید لیا، جب حضرت خدیجہ ؓ نے انہیں اپنا بیٹا بنالیا اور انہیں زید بن محمد ﷺ کے نام سے بلایا جانے لگا۔ حضرت زید بن حارثہ کے والد کو پتہ چلا کہ میرے بیٹے کو فلاں قوم کے لوگوں نے مکہ معظمہ میں لے جاکر بیچ دیا ہے اور وہ وہاں موجود ہے تو وہ حضرت زید ؓ کو چھڑانے کے لیے مکہ معظمہ آئے اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اس کے عوض اتنا اتنا مال لے لیں اور اسے چھوڑ دیں تاکہ ہم اسے اپنے ساتھ لے جائیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا گوارہ کرے تو مفت میں ہی لے جاؤ ہمیں کوئی پیسہ دینے کی ضرورت نہیں، زید کے والد نے کہا : (لقد زدتنا علی النصفۃ) یہ بات تو آپ نے انصاف سے بھی آگے بڑھ کر فرما دی، آپ ﷺ کو رواج کے مطابق نہ چھوڑنے کا بھی حق تھا اور پیسے لے کر چھوڑ دینا آپ کا کرم تھا لیکن جب آپ ﷺ نے یہ فرما دیا کہ مفت میں ہی لے جاؤ تو یہ تو کرم بالائے کرم اور احسان پر احسان ہے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید سے فرمایا کہ جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ عرض کیا یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں، آپ نے فرمایا تم مجھے بھی جانتے ہو اور انہیں بھی پہچانتے ہو، میری صحبت میں اٹھ چکے ہو اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو میرے پاس رہو چاہو تو اپنے گھر چلے جاؤ، اس پر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس رہنے کو ترجیح دی اور اپنے باپ کے ساتھ جانا گوارا نہ کیا، رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عالیہ، حسن سلوک اور شفقت و محبت کے سامنے انہوں نے اپنے باپ کے ساتھ جانا اور کنبہ و قبیلہ میں رہنا منظور نہ کیا اور عرض کیا کہ آپ میرے لیے باپ اور چچا کی جگہ ہیں، باپ اور چچا نے کہا اے زید افسوس کی بات ہے کہ تم نے آزادی کے مقابلہ میں غلامی کو پسند کیا اور اپنے باپ اور چچا اور سب گھر والوں پر کسی دوسرے شخص کو ترجیح دیتے ہو، حضرت زید ؓ نے کہا کہ ہاں میں نے ان میں ایسی صفات دیکھی ہیں کہ ان کو جانتے ہوئے کسی دوسرے کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ یہ پورا واقعہ رسول اللہ ﷺ کے نبوت سے سرفراز کیے جانے سے پہلے کا ہے، جب رسول اللہ ﷺ کو نبوت عطا کی گئی تو جن حضرات نے قبول اسلام کی طرف سبقت کی ان میں حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی تھے، ایک اور قول کے مطابق مردوں میں سے وہ سب سے پہلے فرد تھے جنہوں نے قبول اسلام کی طرف سبقت کی۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی باندی بر کہ حبشیہ سے ان کا نکاح کردیا تھا جن کی کنیت ام ایمن تھی، یہ آپ ﷺ کو اپنے والد ماجد کی میراث میں (اور ایک قول کے مطابق والدہ کی میراث میں) ملی تھیں اور یہی وہ خاتون ہیں جو آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد مقام ابوا سے آپ کو چھوٹی سی عمر میں مکہ معظمہ لے کر آئی تھیں، حضرت ام ایمن ؓ سے حضرت اسامہ بن زید پیدا ہوئے جنہیں (حبٌ رسول اللّٰہ) ( رسول اللہ ﷺ کا پیارا) کہا جاتا تھا۔ ایک عرصہ تک حضرت زید ؓ کو زید بن محمد ﷺ ہی کہا جاتا رہا پھر جب قرآن مجید کی آیت (اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآءِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ) نازل ہوئی (جو کہ اسی سورت کے پہلے رکوع کی آیات میں سے ہے) تو زید بن حارثہ کہا جانے لگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو منہ بولے بیٹے ہیں ان کی نسبت ان کے باپوں کی طرف کرو۔ زید بن حارثہ ؓ سے زینب بنت جحش ؓ کا نکاح اور طلاق پھر آپ ﷺ نے زید بن حارثہ کا نکاح اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش ؓ کے ساتھ کردیا تھا، حضرت زینب ؓ نے آپ ﷺ کے فرمانے پر اس نکاح کو قبول تو کرلیا تھا لیکن باہمی مزاج میں موافقت نہ ہوئی، حضرت زید ؓ چاہتے تھے کہ ان کو طلاق دے دیں لیکن رسول اللہ ﷺ انہیں اس سے باز رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں روکے رکھو لیکن انہوں نے طلاق دے ہی دی، جب انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ تعالیٰ نے بنت جحش ؓ کا نکاح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کردیا۔ یہاں اسی کو فرمایا (فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا) (جب زید نے ان سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کردیا) جب یہ آیت نازل ہوگئی تو آپ بلا اذن و اجازت حضرت زینب ؓ کے پاس تشریف لے گئے اس سے پہلے بھی (زید کی طلاق کی عدت گزرنے کے بعد) آپ نے حضرت زید ؓ ہی کو اپنا پیغام دے کر بھیجا تھا لیکن حضرت زینب ؓ نے جواب میں یوں کہہ دیا تھا کہ میں استخارہ کرکے جواب دوں گی۔ اللہ نے آپ ﷺ سے حضرت زینب ؓ کا نکاح کردیا، اس پر وہ بھی فخر کیا کرتی تھیں اور دوسری ازواج مطہرات سے کہا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے اولیاء نے کیے اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے کیا۔ اس ساری تفصیل کو سامنے رکھ کر آیات بالا کی تفسیر سمجھئے، آیت کریمہ (وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ ) کا ترجمہ دیکھ لیجیے جو اوپر مذکور ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ زید بن حارثہ کے نکاح کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش ؓ کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے عرض کیا کہ میں ان سے نکاح نہیں کروں گی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم انکار نہ کرو ان سے نکاح کرلو، کہنے لگیں کہ اچھا میں پھر اپنے نفس سے مشورہ کرلوں یعنی مجھے سوچ و بچار کا موقع دیا جائے، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت کریمہ (وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ ) (آخر تک) نازل فرما دی، اور حضرت زینب ؓ نے عرض کردیا کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہ کروں گی میں نے زید سے اپنا نکاح کردیا۔ مفسر ابن کثیر ؓ نے اپنی تفسیر میں یہ سبب نزول لکھا ہے (جلد 3 ص 489) اور تفسیر روح المعانی میں ہے کہ جب آپ ﷺ نے زینب بنت جحش ؓ کو زید بن حارثہ کے لیے پیغام دیا تو انہوں نے کہا کہ زید میرے میل کے نہیں میں مرتبہ کے اعتبار سے ان سے بہتر ہوں، اور ان کے بھائی عبد اللہ بن جحش بھی یہی بات کہنے لگے (یہ انہوں نے اس لیے کہا کہ حضرت زید ؓ پر غلامی کا دھبہ لگ گیا تھا اور قریشی بھی نہ تھے) پھر جب آیت کریمہ نازل ہوگئی تو دونوں بہن بھائی راضی ہوگئے۔ (جلد 22: ص 23) آیت شریفہ کا سبب نزول گو خاص ہے لیکن اس کا مفہوم عام ہے جیسا کہ دیگر آیات کے اسباب نزول کے بارے میں مفسرین یہی فرماتے ہیں۔ آیت کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم آجائے تو اس کے کرنے نہ کرنے کا اختیار باقی رہے، جو حکم مل جائے اس پر عمل کرنا ہی کرنا ہے، اسلام سراپا فرمانبرداری کا نام ہے، یہ جو آج کل لوگوں کا طریقہ ہے کہ مسلمانی کے دعویدار بھی ہیں لیکن احکام شرعیہ پر عمل کرنے کو تیار نہیں، یہ اہل ایمان کا طریقہ نہیں، جب قرآن حدیث کی کوئی بات سامنے آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ آج کل اس پر عمل نہیں ہوسکتا (العیاذ باللہ) معاشرت اور معاملات اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں قصداً و ارادۃً قرآن حدیث کے خلاف چلتے ہیں یہ سراسر بےدینی ہے، جیسا کہ آیت کریمہ کے ختم پر فرمایا : (وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا) (اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں جاپڑا) فرائض اور واجبات کو چھوڑنے کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے اور سنن و نوافل کی ادائیگی کی بھی حرص کرنا چاہیے، جس کا فرمانبرداری کا مزاج نہیں ہوتا تو وہ پہلے سنتوں سے بچتا ہے پھر واجبات چھوڑنے لگتا ہے پھر فرائض کی ادائیگی کا اہتمام ختم ہوجاتا ہے حتیٰ کہ شیطان وسوسے ڈال کر ایمان سے بھی ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، خیریت اسی میں ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے حکم ملا ہے دل و جان سے قبول کرے، نیم دروں نیم بروں، مسلمان بھی ہیں اور نہیں بھی، یہ گمراہی کا طریقہ ہے۔
Top