Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 11
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ
وَكَمْ قَصَمْنَا : اور ہم نے کتنی ہلاک کردیں مِنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں كَانَتْ : وہ تھیں ظَالِمَةً : ظالم وَّاَنْشَاْنَا : اور پیدا کیے ہم نے بَعْدَهَا : ان کے بعد قَوْمًا : گروہ۔ لوگ اٰخَرِيْنَ : دوسرے
اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو توڑ دیا جو ظلم کرنے والی تھیں، اور ہم نے ان کے بعد دوسرے لوگوں کو پیدا فرما دیا،
ہلاک ہونے والی بستیوں کی بدحالی ان آیات میں منکرین اور مکذبین کو عبرت دلائی ہے اور پرانی بستیوں کی ہلاکت بتا کر یاد دہانی فرمائی ہے کہ تم سے پہلے کتنی ہی بستیاں تھیں جو ظلم کرتی تھیں۔ یہ ظلم کفر و شرک اختیار کرنے کی وجہ سے تھا۔ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہم نے انہیں تباہ کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری قوم پیدا کردی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ عذاب آ رہا ہے تو وہاں سے دوڑ کر جانے لگے۔ ان سے کہا گیا کہ مت دوڑو۔ تم جس عیش و عشرت میں لگے ہوئے تھے اور جن گھروں میں رہتے تھے انہیں میں واپس آجاؤ تاکہ تم سے پوچھا جائے کہ تم جس ساز و سامان اور جن مکانوں پر گھمنڈ کرتے تھے اور اتراتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ کہاں ہے جائے پناہ اور کہاں ہے حفاظت کی جگہ ؟ جب عذاب آ ہی گیا تو کہنے لگے ہائے ہماری کمبختی ! ہم ظالم تھے ! کیونکہ عذاب آجانے کے وقت توبہ کرنا اور ظلم کا اقرار کرنا کچھ مفید نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ لوگ اپنی یہی بات کہتے رہے کہ ہائے ہائے ہم ظالم تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بجھی ہوئی حالت میں کردیا۔ لفظ قصمنا کا اصل معنی توڑ دینے کا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ تکلیف کو قاصم الظھر کمر توڑنے والی کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ لفظ لا کر ہلاک شدہ بستیوں کی پوری طرح تباہی بیان فرمائی ہے۔ اور رکض گھوڑے کے پاؤں مارنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ جب گھوڑے پر سوار ہو کر دوڑنا شروع کرتے ہیں اور اسے ایڑی مارتے ہیں۔ اس لفظ کو بھاگ جانے کے لیے استعمال فرمایا ہے۔
Top