Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 84
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیقی ہم نے نازل کی اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف كِتٰبًا : ایک کتاب فِيْهِ : اس میں ذِكْرُكُمْ : تمہارا ذکر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
یہ واقعی بات ہے کہ ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری نصیحت ہے کیا تم نہیں سمجھتے۔
آخر میں فرمایا (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) (اور ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی جس میں تمہاری نصیحت ہے کیا تم نہیں سمجھتے) بعض حضرات نے ذکر کم کا مطلب یہ بتایا ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اس کی وجہ سے عرب کی عزت ہے اور دائمی شہرت ہے۔ قرآن کی برکت سے ان لوگوں کو عروج ہوا۔ عرب و عجم کے فاتح بنے۔ قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے دنیا میں عرب کی کوئی بھی حیثیت نہ تھی۔ قرآن کی وجہ سے انہیں بلندی ملی۔ اب اس بلندی کی لاج رکھنا ان کا اپنا کام ہے۔ یہ معنی لیا جائے تو الفاظ قرآنیہ کے مناسب ہے۔ (فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) یہ حکم سورة نحل میں بھی گزر چکا ہے۔ اس میں حکم ہے کہ جسے معلوم نہیں وہ اہل علم سے پوچھ لے۔ اسی وجہ سے علماء نے فرمایا کہ ہر وہ آدمی جسے احکام شریعت معلوم نہیں اس پر واجب ہے کہ اہل علم کی تقلید کرے اور جو مسئلہ معلوم نہ ہو اس کے لیے علماء سے رجوع کرے۔ جاہل رہنا عذر شرعی نہیں ہے۔ خلاف شرع کام کرے اور پھر یوں کہہ دے کہ مجھے پتہ نہ تھا اس سے دنیا میں یا آخرت میں چھٹکارا نہ ہوگا۔ بہت سے لوگ قصداً و عمداً علم دین حاصل نہیں کرتے اور اپنی اولاد کو بھی نہیں پڑھاتے اور اپنے حالات و معاملات میں احکام شرعیہ کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں۔ اور جب کوئی ٹوکتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہ تھا۔ پتہ کے پاؤں تو نہیں ہیں کہ خود سے چل کر آئے۔ پتہ کرنا پڑتا ہے۔ علماء کے پاس جانا پڑتا ہے۔ علم سے دور رہنا اور بیزار رہنا اور جہالت کو عذر بنانا شریعت کے بھی خلاف ہے اور عقل کے بھی۔
Top