Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا کا تذکرہ کیجیے جبکہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب مجھے تنہا نہ چھوڑئیے اور آپ سب وارثوں سے بہتر وارث ہیں
بڑھاپے میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ سے بیٹا مانگنا، اور ان کی دعا قبول ہونا یہ تین آیات ہیں ان میں پہلے تو حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا، ان کا کوئی لڑکا نہ تھا خود بھی بوڑھے تھے اور بیوی بھی بانجھ تھی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسا لڑکا عطا فرمائے جو میرا وارث ہو۔ میں اکیلا ہوں میرے بعد کوئی دینی امور کا سنبھالنے والا ہونا چاہیے۔ مجھے ایسا لڑکا عطا فرمایئے جو میرا خلیفہ بن جائے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے انہیں بیٹے کی بشارت دے دی۔ دعا تو اللہ تعالیٰ سے امید باندھ کر کرلی پھر جب فرشتوں نے بیٹے کی خوشخبری دی تو طبعی طور پر انہیں تعجب ہوا کہ میری اولاد کیسے ہوگی میں تو بہت بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تمہارے رب کے لیے آسان ہے اس نے تمہیں بھی تو پیدا کیا تھا جبکہ تمہارا وجود ذرا بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹا دے دیا اور ان کی بیوی کو قابل ولادت بنا دیا اور بیٹے کا نام یحییٰ تجویز فرما دیا اور اس بیٹے کو نبوت سے سر فراز فرما دیا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا مفصل قصہ سورة آل عمران رکوع نمبر 4 میں اور سورة مریم رکوع نمبر ایک میں بیان ہوچکا ہے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تین عظیم صفات : گزشتہ دو رکوع میں متعدد انبیاء کرام ( علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا۔ پھر ان کی تین بڑی صفات بیان فرمائیں۔ اول یہ کہ (اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ ) (بلاشبہ وہ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے) دوسری صفت یہ کہ (وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًَا) (اور وہ ہمیں رغبت کے ساتھ اور ڈرتے ہوئے پکارا کرتے تھے) اور تیسری صفت یہ کہ (وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ ) (اور وہ ہمارے سامنے خشوع سے رہتے تھے) یہ تین بڑی صفات ہیں۔ تمام اہل ایمان کو ان سے متصف ہونا چاہیے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ نیک کاموں میں مسارعت اور مسابقت کریں۔ حسب استطاعت نیک کاموں میں دیر نہ لگائیں۔ سورة آل عمران میں فرمایا کہ (وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ) (اور اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف جلدی کرو جو اتنی بڑی ہے کہ اس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے) دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ ہمیں رغبت کے ساتھ اور ڈرتے ہوئے پکارتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو اللہ تعالیٰ سے مانگیں خوب رغبت اور لالچ کے ساتھ مانگیں اور ساتھ ہی ڈرتے بھی رہیں۔ اپنے اعمال پیش نظر رکھیں۔ ہر دعا کرنے والا اس بات سے بھی ڈرتا رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اعمال کی خرابی یا آداب دعا کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے دعا قبول نہ ہو۔ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جبکہ رَغَبًا وَّ رَھَبًا دونوں اسم فاعل کے معنی میں ہوں یعنی راغبین اور راھبین اور بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بھی بتایا ہے کہ رغبت اور خوف کی دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے۔ کسی حالت میں بھی دعا سے غافل نہ ہوتے تھے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تیسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ ) (اور ہمارے سامنے خشوع سے رہتے تھے) ۔ خشوع قلبی جھکاؤ کو کہتے ہیں۔ پھر جس کا دل جھکا ہوتا ہے اس کے اعضاء میں بھی جھکاؤ ہوتا ہے۔ یعنی ان سے فخر وتکبر کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ جس کے دل میں اللہ کی عظمت بیٹھ گئی اس کے قلب میں اور اعضاء وجوارح میں اپنی بڑائی کا کہاں تصور ہوسکتا ہے ؟ اور اس کے اعضاء وجوارح میں کیسے اکڑ مکڑ ہوسکتی ہیں، اس میں جو لفظ لَنَا بڑھایا ہے اس میں یہ بتادیا کہ ذات خداوندی کی عظمت اور کبریائی، مومنین اور موقنین کے یقین میں گھلی ملی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ حالت خشوع ہی میں رہتے ہیں۔ نماز میں تو خشوع ہوتا ہی ہے دیگر احوال و اوقات میں بھی ان کے قلوب میں خشوع رہتا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کے لیے جس کے دل میں جھکاؤ ہوگا وہ مامورات پر بھی عمل کرے گا اور منھیات سے بھی بچے گا۔ جعل لنا اللہ تعالیٰ منہ حظا وافرا۔ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تذکرہ اس عورت کو یاد کرو جس نے اپنی ناموس کو محفوظ رکھا۔ اس سے حضرت مریم [ مراد ہیں۔ جیسا کہ سورة التحریم کے آخر میں اس کی تصریح ہے۔ انہوں نے اپنی عفت و عصمت کو محفوظ رکھا۔ ان کا نہ کسی مرد سے نکاح ہوا اور نہ کسی مرد سے کوئی گناہ گاری کا تعلق ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں یہ تھا کہ ان کو بیٹا دیا جائے۔ پھر یہ بیٹا اللہ کا رسول بنے اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے مبعوث ہو۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرشتہ بھیجا جس نے ان کے کرتہ کے دامن میں پھونک مار دی۔ جس سے حمل قرار ہوگیا اور اس کے بعد لڑکا پیدا ہوگیا۔ یہ لڑکا کون تھا ؟ یہ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے جو بنی اسرائیل کے سب سے آخری نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر انجیل نازل فرمائی اور انہوں نے بنی اسرائیل کو تبلیغ کی اور شریعت کے احکام بتائے۔ بنی اسرائیل ان کے سخت مخالف ہوگئے اور ان کے قتل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ قیامت سے پہلے دوبارہ تشریف لائیں گے۔ جیسا کہ احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (وَ جَعَلْنٰھَا وَ ابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ) (اور ہم نے اس عورت کو اور اس کے بیٹے کو جہانوں کے لیے نشانی بنا دیا) تاکہ دنیا جہاں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ بغیر مرد کے کسی عورت کے رحم میں حمل پیدا فرما سکتا ہے اور بغیر باپ کے بھی عورت کی اولاد ہوسکتی ہے۔ گو عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ اپنی قدرت بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے اور حواء [ کو بغیر ماں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا فرما دیا۔ (ذٰلِکَ مِنْ اٰیَات اللّٰہِ ) یاد رہے کہ قرآن مجید میں حضرت مریم [ کے پاک دامن ہونے کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کی تصریح آگئی ہے لیکن چونکہ اور کسی کے لیے اس کی تصریح نہیں ہے اس لیے کوئی عورت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ میرا یہ حمل بغیر مرد کے ہے۔ اگر کوئی بےشوہر والی عورت ایسا کہے گی اور اسے حمل ہوگا تو امیر المومنین اس پر حد جاری کر دے گا۔ کیونکہ بندے ظاہر کے مکلف ہیں۔
Top