Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 81
وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ١ؕ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ
وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِهٰدِي : ہدایت دینے والے الْعُمْىِ : اندھوں کو عَنْ : سے ضَلٰلَتِهِمْ : ان کی گمراہی اِنْ : نہیں تُسْمِعُ : تم سناتے اِلَّا : مگر۔ صرف مَنْ : جو يُّؤْمِنُ : ایمان لاتا ہے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں پر فَهُمْ : پس وہ مُّسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر راستہ دکھا سکتے، آپ تو انہیں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں سو وہ فرمانبر دار ہیں
(اِنْ تُسْمِعُ الاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَھُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) یعنی آپ صرف ایسے ہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں اور اطاعت قبول کریں اس پورے مضمون میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس جگہ سننے سنانے سے مراد محض کانوں میں آواز پہنچنا نہیں بلکہ مراد اس سے وہ سماع اور سننا ہے جو نفع بخش ہو جو سماع نافع نہ ہو اس کو قرآن نے مقصد کے اعتبار سے عدم سماع سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ آخر آیت میں یہ ارشاد ہے کہ آپ تو صرف ان لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ایمان لائیں اگر اس میں سنانے سے مراد محض ان کے کان تک آواز پہنچانا ہوتا تو قرآن کا یہ ارشاد خلاف مشاہدہ اور خلاف واقع ہوجاتا کیونکہ کافروں کے کانوں تک آواز پہنچانے اور ان کے سننے جواب دینے کی شہادتیں بیشمار ہیں کوئی بھی ان کا انکار نہیں کرسکتا اس سے واضح ہوا کہ سنانے سے مراد سماع نافع ہے ان کو مردہ لاش سے تشبیہ دے کر جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اس کے معنی یہی ہوئے کہ جیسے مردے کوئی بات حق کی سن بھی لیں اور اس وقت وہ حق کو قبول کرنا چاہیں تو یہ ان کے لیے نافع نہیں کیونکہ وہ دنیا کے اس دارالعمل سے گزر چکے ہیں جہاں ایمان و عمل نافع ہوسکتا ہے اسی طرح آپ کے مخاطبین جو کچھ سنتے ہیں اس سے منتفع نہیں ہوتے اس لیے اس آیت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مردے کوئی کلام کسی کا سن ہی نہیں سکتے سماع اموات کے مسئلہ سے در حقیقت یہ ساکت ہے البتہ یہ مسئلہ اپنی جگہ قابل نظر ہے کہ مردے کسی کلام کو سن سکتے ہیں یا نہیں۔ مسئلہ سماع اموات : یہ مسئلہ کہ مردے زندوں کا کلام سن سکتے ہیں یا نہیں ان مسائل میں سے ہے جن میں خود صحابہ کرام کا با ہم اختلاف رہا ہے حضرت عبداللہ بن عمر سماع موتی کو ثابت قرار دیتے ہیں اور حضرت ام المومنین صدیقہ عائشہ اس کی نفی کرتی ہیں اسی طرح دوسرے صحابہ وتابعین میں بھی دو گروہ ہوئے بعض اثبات کے قائل ہیں بعض نفی کے۔ اور قرآن کریم میں یہ مضمون ایک تو اسی موقع پر سورة نمل میں آیا ہے دوسرے سورة روم میں تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ دوسری آیت آئی ہے اور سورة فاطر میں یہ مضمون ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے (وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ) یعنی آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو کہ قبروں میں ہیں ان تینوں میں یہ بات قابل نظر ہے کہ ان میں سے کسی آیت میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ مردے سن نہیں سکتے بلکہ تینوں آیتوں میں نفی اس کی گئی ہے کہ آپ نہیں سنا سکتے تینوں آیتوں میں اس تعبیر و عنوان کو اختیار کرنے سے اس طرف واضح اشارہ نکلتا ہے کہ مردوں میں سننے کی صلاحیت تو ہوسکتی ہے مگر باختیار خود ان کو نہیں سنا سکتے۔ ان تینوں آیتوں کے علاوہ ایک چوتھی آیت جو شہداء کے بارے میں آئی ہے وہ ثابت کرتی ہے کہ شہداء کو اپنی قبروں میں ایک خاص قسم کی زندگی عطا ہوتی ہے اور اس زندگی کے مطابق رزق بھی ان کو ملتا ہے اور اپنے پسماندہ متعلقین کے متعلق بھی منجانب اللہ ان کو بشارت سنائی جاتی ہے آیت یہ ہے (وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ مرنے کے بعد بھی روح انسان میں شعور اور ادراک باقی رہ سکتا ہے بلکہ شہداء کے معاملہ میں اس کے وقوع کی شہادت بھی یہ دے رہی ہے رہا یہ معاملہ کہ یہ حکم تو شہیدوں کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے اموات کے لیے نہیں، سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے کم از کم یہ تو ثابت ہوگیا کہ مرنے کے بعد بھی روح انسانی میں شعور اور ادراک اور اس دنیا کے ساتھ علاقہ باقی رہ سکتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ شانہٗ شہداء کو یہ اعزاز بخشتا ہے کہ ان ارواح کا تعلق ان کے اجساد اور قبور کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے اسی طرح جب اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے اموات کو یہ موقع دے سکتے ہیں جو حضرات سماع اموات کے قائل ہیں ان کا یہ قول بھی ایک صحیح حدیث کی بناء پر ہے جو اسناد صحیح کے ساتھ منقول ہے وہ یہ ہے۔ ما من احد یمر بقبر اخیہ المسلم کان یعرفہ فی الدنیا فیسلمہ علیہ الارد اللہ علیہ روحہ حتی یرد علیہ السلام۔ (ذکرہ ابن کثیر فی تفسیرہ) جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی قبر سے گزرتا ہے جس کو وہ دنیا میں پہچانتا تھا اور وہ اس کو سلام کرے تو اللہ اس مردے کی روح اس میں واپس بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ سلام کا جواب دے۔ معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کی قبر پر جا کر سلام کرتا ہے تو وہ مردہ اس کے سلام کو سنتا ہے اور جواب دیتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت اس کی روح اس دنیا میں واپس بھیج دیتے ہیں۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ مردے سن سکتے ہیں دوسرے یہ کہ ان کا سننا اور ہمارا سننا ہمارے اختیار میں نہیں البتہ اللہ تعالیٰ جب چاہیں سنا دیں۔ جب چاہیں نہ سنائیں۔ مسلمان کے سلام کا جواب دینے کے بعد قدرت دیتے ہیں باقی حالات و کلمات کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ مردہ ان کو سنتا ہے یا نہیں۔ اس لیے امام غزالی اور علامہ سبکی وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ اتنی بات تو احادیث صحیح اور قرآن کی آیت مذکور سے ثابت ہے کہ بعض کے کلام سنتے ہیں لیکن یہ ثابت نہیں کہ ہر مردہ ہر حال میں ہر شخص کے کلام کو ضرور سنتا ہے اسی طرح آیات و روایات کی تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مردے ایک وقت میں احیاء کے کلام کو سن سکیں دوسرے وقت نہ سن سکیں، یہ بھی ممکن ہے کہ بعض کے کلام کو سنیں بعض کے کلام کو نہ سنیں، یا بعض مردے سنیں، کیونکہ سورة نمل، سورة روم، سورة فاطر کی آیات سے یہ بھی ثابت ہے کہ مردوں کو سنانا ہمارے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں سنا دیتے ہیں اس لیے جن مواقع میں حدیث کی روایات صحیح سے سننا ثابت ہے وہاں سننے پر عقیدہ رکھا جائے اور جہاں ثابت نہیں وہاں احتمال ہیں اس لیے نہ قطعی اثبات کی گنجائش ہے نہ قطعی نفی کی، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ و ثبت عنہ ﷺ لامتہ اذا سلموا علی اھل القبور ان یسلموا علیھم سلام من یخاطبونہ فیقول المسلم السلام علیکم دار قوم مؤمنین و ھذا خطاب لمن یسمع و یعقل ولو لا ھذا الخطاب لکانوا بمنزلۃ خطاب المعدوم و الجماد، و السلف مجتمعون علی ھذا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے اپنی امت کو تعلیم دی کہ اہل قبور کو سلام کریں اگر اس طرح کا خطاب نہ ہوتا تو اموات معدوم اور جماد کی طرح ہوتے (جبکہ خطاب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لوگ جماد کی طرح نہ ہوں بلکہ سنتے سمجھتے ہوں اور سلف کا اموات کو اس طرح سلام کرنے پر اجماع ہے) حافظ ابن کثیر ؓ نے جس صیغہ خطاب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ صحیح مسلم میں اس طرح سے ہے السلام علیکم دار قوم مؤمنین و اتاکم ماتوعدون غدامؤجلون و انا انشاء اللہ بکم لاحقون۔ (ص 313 ج) سلام میں خطاب ہے جو سننے پر دلالت کرتا ہے البتہ یہ احتمال رہ جاتا ہے کہ سلام کو سنتے ہوں اس کے علاوہ وہ دوسری باتیں نہ سنتے ہوں لیکن اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے اور اس مسئلے میں کدو کاوش کی بھی ضرورت نہیں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ سے کسی نے سوال کیا کہ اہل قبور سنتے ہیں یا نہیں تو جواب میں تحریر فرمایا دونوں طرف اکابر اور دلائل ہیں، ایسے اخلاقی امر کا فیصلہ کون کرسکتا ہے اور ضروریات عملی و علمی میں سے بھی نہیں، کہ ایک جانب کی ترجیح میں تدقیق کی جائے۔ پھر اس میں بھی معتقدین سماع موتی کے عقائد مختلف ہیں اگر کسی اعتقاد خاص کی تعیین ہوتی تو کسی قدر جواب ممکن تھا۔ واللہ اعلم (امداد الفتاویٰ ج 5صفحہ 379)
Top