Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 80
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تُسْمِعُ : تم نہیں سنا سکتے الْمَوْتٰى : مردوں کو وَلَاتُسْمِعُ : اور تم نہیں سنا سکتے الصُّمَّ : بہروں کو الدُّعَآءَ : پکار اِذَا وَلَّوْا : جب وہ مڑ جائیں مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
بلاشبہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ آپ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں
آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور اندھوں کو راہ حق نہیں دکھا سکتے رسول اللہ ﷺ توحید کی دعوت دینے میں بہت محنت کرتے تھے مکہ معظمہ کے مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا اکثر لوگ دوربھاگتے تھے آپ چاہتے تھے کہ سب مسلمان ہوجائیں وہ لوگ رو گردانی کرتے تھے تو آپ کو رنج ہوتا تھا، اللہ پاک کی طرف سے آپ کو تسلی دی جاتی تھی تسلی کا مضمون آیت کریمہ (وَ لاَ تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ لاَ تَکُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ ) میں بھی بیان ہوچکا ہے یہاں دوسرے انداز میں آپ کو تسلی دی گئی ہے وہ یہ کہ جن لوگوں نے اپنی ضد اور عناد کی وجہ سے اپنی قبول حق کی صلاحیت ختم کردی ہے آپ انہیں ہدایت نہیں دے سکتے ہدایت دینا تو دور کی بات ہے آپ انہیں اپنی بات سنا بھی نہیں سکتے ان لوگوں کو اولاً مردہ پھر گونگا اندھا بتایا اور اپنے نبی ﷺ کو خطاب فرمایا کہ یہ لوگ مردوں کی طرح سے ہیں انہیں آپ کوئی بات نہیں سنا سکتے اور بہروں کی طرح ہیں آپ آواز بھی نہیں سنا سکتے خصوصاً جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر دور چلے جا رہے ہوں (اول تو بہرہ پھر وہ دور بھاگے بھلا اس کو کیا سنایا جاسکتا ہے) بات سننے کے بارے میں ان کا حال یہ بیان ہوا، مزید فرمایا کہ وہ اندھے بن چکے ہیں، اندھے کو یہ دکھانا کہ یہ راہ اچھی ہے اور وہ راہ بری ہے آپ کے بس میں نہیں ہے، بس جب منکرین و مکذبین کا یہ حال ہے تو آپ انہیں حق بات کیسے سنا سکتے ہیں اور وہ راہ حق کیسے دکھا سکتے ہیں۔ اگر ان کے کانوں میں بات پڑتی بھی ہے تو ضد اور عناد میں ساری سنی کو ان سنی کردیتے ہیں۔
Top