Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ دَآبَّةٍ : جانور جو لَّا تَحْمِلُ : نہیں اٹھاتے رِزْقَهَا : اپنی روزی اَللّٰهُ : اللہ يَرْزُقُهَا : انہیں روزی دیتا ہے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور کتنے ہی چوپائے ہیں جو اپنا رزق نہیں اٹھاتے اللہ انہیں اور تمہیں رزق دیتا ہے، اور وہ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔
رزق مقدر ضرور ملے گا دوسری بات کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ کَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّاتَحْمِلُ رِزْقَھَا اَللّٰہُ یَرْزُقُھَا وَ اِیَّاکُمْ ) (زمین پر چلنے والے بہت سے جانور ہیں جو اپنا رزق نہیں اٹھاتے، اللہ ان کو رزق دیتا ہے) اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ جانور اپنا رزق ساتھ لیے نہیں پھرتے جہاں ہوتے ہیں اللہ ان کا رزق دے دیتا ہے، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ ذخیرہ نہیں رکھتے، جو ملا کھالیا آگے کی فکر نہیں کرتے نہ ان کے یہاں رزق جمع کرنے کا انتظام ہے نہ تحصیل رزق کی کوشش، وہ اسباب کے پیچھے نہیں پڑتے اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے رزق عطا فرماتا ہے، اسی طرح جب تم ہجرت کرو گے تو وہ تمہیں رزق دے گا اب تک جس نے کھلایا پلایا ہجرت کے بعد بھی وہی کھلائے پلائے گا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دیتا جیسے پرندوں کو رزق دیتا ہے، وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح ص 452) حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ رزق بندہ کو اس طرح طلب کرلیتا ہے جیسے اسے موت طلب کرلیتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح 454) آخر میں فرمایا : (وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) (اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے) وہ سب کی باتیں سنتا ہے اور سب کے احوال جانتا ہے، جو شخص اخلاص کے ساتھ ہجرت کرے، سچے دل سے اللہ پر توکل کرے، اور جو شخص عذر کی وجہ سے ہجرت کرنے سے رکے، اور جو شخص محض دنیاوی مفاد کے پیش نظر ہجرت کے لیے نکلے، اللہ تعالیٰ کو ان سب کے احوال و اقوال معلوم ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو بہت سے لوگ مکہ معظمہ میں رہ گئے ان میں اصحاب عذر بھی تھے اور وہ لوگ بھی تھے جن کے لیے واقعی عذر نہ تھا، وہ ہجرت کرسکتے تھے، اس زمانے میں مدینے کے لیے ہجرت کرنا فرض تھا، جو شخص ہجرت نہ کرتا اس کا ایمان معتبر نہ سمجھا جاتا تھا، جب مکہ معظمہ فتح ہوگیا تو ہجرت کی فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن مختلف احوال کے اعتبار سے ہمیشہ ایسے احوال مسلمانوں کے لیے پیش آتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے ایمان اور اعمال باقی رکھنے کے لیے ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے لیکن گھر بار، مال، جائیداد اور رشتہ داروں کی محبت میں وطن نہیں چھوڑتے، ایسی جگہوں میں رہتے ہیں جہاں اذان بھی نہیں دے سکتے، نماز بھی نہیں پڑھ سکتے مگر دنیا کی محبت انہیں ہجرت نہیں کرنے دیتی، ایسے لوگ تارک فرض ہوتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے سورة نساء کا مطالعہ کیجیے) (انوار البیان ج 2)
Top