Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 120
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ١٘ وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَا١ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۠   ۧ
اِنْ : اگر تَمْسَسْكُمْ : پہنچے تمہیں حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی تَسُؤْھُمْ : انہیں بری لگتی ہے وَ : اور اِنْ : اگر تُصِبْكُمْ : تمہیں پہنچے سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّفْرَحُوْا : وہ خوش ہوتے ہیں بِھَا : اس سے وَاِنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پر وہیز گاری کرو لَا يَضُرُّكُمْ : نہ بگاڑ سکے گا تمہارا كَيْدُھُمْ : ان کا فریب شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِمَا : جو کچھ يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : گھیرے ہوئے ہے
اگر تم کو کوئی اچھی حالت پہنچ جائے تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر تمہیں کوئی بری حالت پہنچ جائے تو اس سے خوش ہوتے ہیں، اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی مکاری تمہیں کچھ بھی ضرر نہ پہنچائے گی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے۔
مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے مزید فرمایا (اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْ وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیّءَۃٌ یَّفْرَحُوْابِھَا) (کہ اگر تم کو اچھی حالت پیش آجاتی ہے اس سے وہ رنجیدہ ہوتے ہیں اور اگر تم کو کوئی ناگواری کی حالت پیش آجائے تو وہ خوش ہوتے ہیں) کیا ایسے لوگ محبت کرنے کے قابل ہیں ؟ تفسیر درمنثور صفحہ 66: ج 2 میں حضرت ابن عباس ؓ سے آیت (یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ ) کا سبب نزول یہ نقل کیا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے تھے جن کا زمانہ جاہلیت میں یہود مدینہ سے پڑوسی ہونے کی وجہ سے تعلق تھا اور بعض مواقع میں آپس میں ایک دوسرے کے حلیف بھی بن جاتے تھے اس پرانے تعلق کی وجہ سے قبول اسلام کے بعد بھی ان مسلمانوں نے یہودیوں سے اپنا تعلق جاری رکھا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے تعلق سے منع فرمایا جس سے دشمن راز دار بن جائے (تجارت اور معاملات کی حدتک تو تعلق رکھنے کی گنجائش ہے لیکن ایسے تعلق کی کوئی گنجائش نہیں جس سے مسلمانوں کے راز دشمنوں پر کھلیں اور مسلمانوں کی اندرونی حالت سے دشمن باخبر ہوجائیں۔ ) آیت کے سبب نزول سے معلوم ہوا کہ یہودیوں کے پاس بعض مسلمانوں کا آنا جانا تھا اس پر تنبیہ فرمائی اور یہودیوں کا ظاہرباطن سب بتادیا چونکہ ہر زمانے کے کافروں کا مسلمانوں کے بارے میں ایک ہی حال ہے اس لیے ہم نے دور حاضر کے مسلمانوں کو بھی تنبیہ کردی اور بتادیا کہ کسی بھی کافر کو راز دار نہ بنائیں اور مسلمانوں کے بھیدان کو نہ پہنچ جائیں۔ یہودیوں کی مکاریاں اور دسیسہ کاریاں ابھی تک جاری ہیں، گو احوال اور ظروف کے اعتبار سے کچھ بدل گئی ہیں نصاریٰ کی حکومتوں میں بھی یہودیوں کا بہت دخل ہے، وہ مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کے افراد کو بھی استعمال کرتے ہیں اور نصرانی حکومتوں میں بھی ان کی خفیہ سازشیں اور پوشیدہ مکاریاں جاری ہیں جو ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ یہ جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کفار اپنی تدبیروں میں مسلمانوں پر کیوں غالب ہیں اس کا جواب آیت کے اخیر میں دے دیا جو ہمیشہ کے لیے ناطق فیصلہ ہے اللہ جل شانہٗ نے فرمایا : (وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْءًا) (کہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی مکاری تمہیں کچھ بھی نقصان نہ دے گی) مسلمان صبر اور تقویٰ اختیار کریں، دین پر جمیں، گناہوں سے بچیں تو دشمن کی مکاریاں کچھ بھی ضرر نہ دیں گی۔ ہتھیاروں کا انتظام کرنا جیسا کہ دشمن کے دفاع کا سبب ہے اسی طرح سے صبر وتقویٰ بھی دفاع دشمن کا ایک ہتھیار ہے بلکہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے اہل ایمان غافل رہتے ہیں آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ) (کہ بلاشبہ اللہ کو تمہارے دشمنوں کا پوری طرح علم ہے) ۔ وہ ان کو اپنی حکمت مشیت و ارادہ کے مطابق سزا دے گا۔ کافر تمہارے بگاڑ میں کبھی کوتاہی نہ کریں گے : کافروں کے میل ملاپ سے جو منع فرمایا، اور ان کو راز دار بنانے کی جو ممانعت فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑی عبرت اور موعظت اور نصیحت ہے۔ کافروں کو دوست بناتے ہیں اور قرآن مجید میں جو واضح طور پر فرمایا ہے (لاَ یَأْلُوْنَکُمْ ) اس سے غافل ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ تمہارے فساد اور بگاڑ میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں گے۔ یہود و نصاریٰ اور تمام مشرکین حتیٰ کہ وہ لوگ جو اسلام کے مدعی ہیں لیکن اپنے عقائد کے اعتبار سے کافر ہیں (جن میں روافض پیش پیش ہیں) یہ سب اسلام اور اہل اسلام کے پورے اور پکے دشمن ہیں۔ ان سے دوستی کرکے اچھی امید رکھنا بیوقوفی ہے، اسلام کے عہد اول سے ہی دشمنان اسلام اپنی مکاریوں اور تدبیروں سے کبھی غافل نہیں ہوئے اسلام کو بڑھتا دیکھتے ہیں تو جلتے ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو اسلام مکہ سے آگے نہ بڑھتا، لیکن یہ جلتے رہے اسلام بڑھتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اللّٰہِ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ ) دشمن تو تباہ کرنے کی فکر میں ہے اور مسلمان ہیں کہ ان سے دوستی کرنے ہی کو ہنر سمجھ رہے ہیں، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
Top