Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جب آپ اپنے گھر سے صبح کے وقت نکلے مسلمانوں کو قتال کرنے کے لیے مقامات بتا رہے تھے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
غزوہ احد کا تذکرہ ان آیات میں غزوہ احد کا تھوڑا سا ذکر ہے۔ پھر آئندہ رکوع میں اور اس کے بعد والے رکوع میں تفصیل سے اس غزوہ کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت سرورعالم ﷺ نے مکہ معظمہ میں جب اسلام کی دعوت دی تو مکہ کے مشرکین آپ کے دشمن ہوگئے۔ بڑی بڑی مشکلات سے گزرتے رہے دشواریاں پیش آتی رہیں۔ تیرہ سال تک محنت و مجاہدہ کرتے ہوتے اور مشقت اٹھاتے ہوئے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے اسلام کی دعوت دی لیکن مکہ معظمہ کے مشرکوں نے آپ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا اور انصار مدینہ کی دعوت پر آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے یہاں آکر بھی مشرکین مکہ نے پیچھا نہ چھوڑا اور یہود مدینہ نے اندرونی خلفشار اور دشمنی کا سلسلہ جاری رکھا منافقوں کا بھی ظہور ہوا یہ لوگ ظاہری طور پر اسلام کا نام لیتے تھے اور اندر سے کاٹ کرتے تھے چونکہ یہودی بہت بڑے دشمن تھے اس لیے ان سے میل محبت کا تعلق رکھنے سے منع فرمایا جس کا ذکر اوپر کی آیات میں ہوچکا اس وقت کے موجودہ دشمن یہودی تھے (جو مدینہ میں رہتے تھے) اور مشرکین مکہ بھی دشمن تھے ان سب سے میل و محبت سے منع فرمایا اور ہمیشہ کے لیے تمام مسلمانوں کو یہ ممانعت کردی گئی۔ مشرکین مکہ اپنی دشمنی کی وجہ سے ہجرت کے دوسرے سال بہت بھاری تعداد میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے چڑھ آئے اور مقام بدر میں فیصلہ کن جنگ ہوئی سب کی نظروں کے سامنے حق و باطل کا فیصلہ ہوگیا غزوہ بدر کا واقعہ کچھ اسی رکوع میں آنے والی آیات میں بیان فرمایا اور کچھ سورة آل عمران کے دوسرے رکوع میں گزر چکا۔ اور تفصیل کے ساتھ سورة انفال کے پہلے اور دوسرے رکوع میں اور چھٹے اور ساتویں رکوع میں بیان فرمایا۔ ہم اس کو تفصیل سے سورة انفال کی تفسیر میں انشاء اللہ بیان کریں گے۔
Top