Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 60
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ
اَلْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : آپ کا رب فَلَا تَكُنْ : پس نہ ہو مِّنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
یہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے سو آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجائیں۔
پھر فرمایا (اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ ) کہ یہ جو کچھ بیان ہوا آپ کے رب کی طرف سے حق ہے آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجائیں بظاہر اس میں خطاب رسول اللہ ﷺ کو ہے اور مقصود امت کو خطاب کرنا ہے کہ وہ کسی طرح سے شک میں نہ پڑیں۔ کما قال البغوی فی معالم التنزیل الخطاب للنبی ﷺ والمراد امتہ۔ (صفحہ 310: ج 1) اسباب النزول صفحہ 98 میں لکھا ہے کہ نجران کے نصاریٰ کا ایک وفد آیا اس نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ کیا بات ہے آپ ہمارے صاحب کو (یعنی ہم جسے مانتے ہیں) برا کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں کیا کہتا ہوں ؟ کہنے لگے آپ کہتے ہیں کہ وہ ایک بندہ ہے آپ نے فرمایا کہ ہاں وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور وہ اللہ کا کلمہ ہیں جسے کنواری عورت بتول کی طرف ڈالا۔ یہ سن کر وہ لوگ غصہ ہوگئے اور کہنے لگے کیا کوئی انسان کبھی بغیر باپ کے آپ نے دیکھا ہے۔ ہمیں کوئی شخص ایسا دکھاؤ جو بغیر باپ کے پیدا ہوا ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ) (الآیۃ) نازل فرما دی جس میں ان کا جواب مذکور ہے۔
Top