Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 51
تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُئْوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ١ؕ وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنَّ وَ یَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا
تُرْجِيْ : دور رکھیں مَنْ تَشَآءُ : جس کو آپ چاہیں مِنْهُنَّ : ان میں سے وَ تُئْوِيْٓ : اور پاس رکھیں اِلَيْكَ : اپنے پاس مَنْ تَشَآءُ ۭ : جسے آپ چاہیں وَمَنِ : اور جس کو ابْتَغَيْتَ : آپ طلب کریں مِمَّنْ : ان میں سے جو عَزَلْتَ : دور کردیا تھا آپ نے فَلَا جُنَاحَ : تو کوئی تنگی نہیں عَلَيْكَ ۭ : آپ پر ذٰلِكَ اَدْنٰٓى : یہ زیادہ قریب ہے اَنْ تَقَرَّ : کہ ٹھنڈی رہیں اَعْيُنُهُنَّ : ان کی آنکھیں وَلَا يَحْزَنَّ : اور وہ آزردہ نہ ہوں وَيَرْضَيْنَ : اور وہ راضی رہیں بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ : اس پر جو آپ نے انہیں دیں كُلُّهُنَّ ۭ : وہ سب کی سب وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَلِيْمًا : بردبار
آپ ان میں سے جسے چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جسے چاہیں اپنے نزدیک ٹھکانہ دیں اور جسے آپ دور کردیں اسے طلب کریں تو اس بارے میں آپ پر کوئی گناہ نہیں یہ اس بات سے قریب تر ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ آپ ان کو دیں وہ سب اس پر راضی رہیں اور اللہ جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ جاننے والا ہے حلم والا ہے۔
ازواج مطہرات ؓ کے بارے میں آپ کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جسے چاہیں دور کردیں آیت بالا میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب ہے اور یہ فرمایا ہے کہ آپ کے نکاح میں جو عورتیں ہیں ان میں باری مقرر کرنے یا نہ کرنے کا آپ کو اختیار ہے کہ جس کو چاہیں باری دینے میں شامل فرما دیں اور جس کو چاہیں شامل نہ فرمائیں یعنی ازواج کے درمیان باری تقسیم کرنا آپ پر واجب نہیں ہے جیسا کہ امت کے افراد پر واجب ہے، اگر آپ نے کسی کو باری میں شمار نہیں فرمایا اور اس کے بعد پھر اس کے لیے باری مقرر کرنا چاہیں تو پھر سے باری میں شامل فرما سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو مذکورہ بالا اختیار دے دیا اور آپ کی ازواج کو یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے ذمہ باری مقرر کرنا واجب نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ جو کچھ انہیں مال عطا فرمائیں گے وہ بھی محض تبرع ہوگا۔ تو یہ سب باتیں جانتے ہوئے اگر ان میں سے کسی کو مال نہ ملا یا باری میں شمار نہیں کی گئیں تو اس سے رنجیدہ نہ ہوں گی اور جو کچھ ملے گا اس سے راضی رہیں گی اور اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔ اور بعض حضرات نے (اٰتَیْتَھُنَّ ) سے مال مراد نہیں لیا بلکہ ان کے درمیان باری مقرر کرنا اور باری کا چھوڑ دینا مراد لیا ہے۔ قال صاحب الروح (ج 22، ص 63) (أی تفویض الا مرالی مشیئتک اقرب الٰی قرۃ عیونھنّ سرورھن ورضاھنّ جمیعا لانہ حکم کلھن فیہ سواء ثم ان سویت بینھنّ وجدن ذٰلک تفضلا منک وان رجحت بعضھن علمن انہ بحکم اللّٰہ تعالیٰ فتطمئن بہ نفوسھن، وروی ھذا عن قتادۃ والمراد بما اتیتھن علیہ ما صنعت معھن فیتناول ترک المضاجعۃ والقسم) (تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) فرماتے ہیں یعنی معاملہ کا آپ کے سپرد ہونا ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کی خوشی و رضا کے زیادہ قریب ہے کیونکہ اس میں سب کا حکم برابر ہے۔ پھر اگر آپ ان میں برابری کریں گے تو وہ آپ کی طرف سے احسان سمجھیں گی۔ اور اگر آپ ان میں سے کسی کو ترجیح دیں گے تو وہ یہی سمجھیں گی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے اور ان کے دل مطمئن رہیں گے۔ اور یہ قتادہ سے مروی ہے۔ اور (بما اٰتَیْتَھُنَّ ) سے مراد ہے وہ معاملہ و سلوک جو آپ ان سے کریں گے پس یہ ساتھ لیٹنے کے ترک اور باری کی تقسیم کو شامل ہے۔ ) (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کو اور آپ کے ازواج مطہرات ؓ کو خطاب ہے (جو علیٰ سبیل التغلیب ہے) اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے قلب مبارک میں بعض ازواج کی طرف میلان ڈالا اور ازواج مطہرات ؓ کے بارے میں جو حکم نازل ہوا جسے انہوں نے خوشی کے ساتھ قبول کیا اللہ تعالیٰ کو اس سب کا علم ہے باوجودیکہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اجازت تھی کہ جسے چاہیں دور رکھیں اور جسے چاہیں قریب رکھیں پھر بھی آپ تقسیم میں برابری فرماتے تھے اور غیر اختیاری رجحان جو کسی کی طرف تھا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں عرض کیا : (اَللّٰھُمَّ ھٰذا قَسَمِیْ فیما املک فلا تَلُمنی فیما تملک ولا املک) اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے لہٰذا آپ اس پر ملامت نہ فرمائیے جو کہ آپ کے اختیار میں ہے (یعنی قلبی میلان) اور جو میرے اختیار میں نہیں ہے۔ (رواہ الترمذی) رسول اللہ ﷺ تمام بیویوں کے لیے باری مقرر کرتے تھے اور برابری فرماتے تھے البتہ حضرت سودہ ؓ نے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دی لہٰذا آپ ﷺ ان کی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دیتے تھے اور سفر میں تشریف لے جاتے تھے تو قرعہ ڈالتے تھے اس طرح آپ کی دلداری فرماتے تھے۔ (وَکَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا) اور اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے اسے سب کچھ معلوم ہے اور حلیم بھی ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اسے سزا دینے میں جلدی نہیں فرماتا۔
Top