Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠   ۧ
لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكَ : آپ کے لیے النِّسَآءُ : عورتیں مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَلَآ : اور نہ اَنْ تَبَدَّلَ : یہ کہ بدل لیں بِهِنَّ : ان سے مِنْ : سے (اور) اَزْوَاجٍ : عورتیں وَّلَوْ : اگرچہ اَعْجَبَكَ : آپ کو اچھا لگے حُسْنُهُنَّ : ان کا حسن اِلَّا : سوائے مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ : جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ (کنیزیں) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے رَّقِيْبًا : نگہبان
اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ بات حلال ہے کہ آپ ان بیویوں کے بدلہ دوسری بیویوں سے نکاح کریں اگرچہ آپ کو ان کا حسن بھلا معلوم ہو مگر جو آپ کی مملوکہ ہو اور اللہ ہر چیز کا نگران ہے۔
اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ آپ ان بیویوں کے بدلے دوسری عورتیں سے نکاح کرسکتے ہیں اس آیت کا مطلب ظاہری الفاظ اور سباق کے اعتبار سے یہ ہے کہ اس وقت (اس آیت کے نزول کے وقت) جو آپ کے نکاح میں عورتیں ہیں آپ انہیں کو اپنے نکاح میں رکھیں ان کے علاوہ کسی عورت سے آپ کو نکاح کرنا حلال نہیں ہے اور اس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ ان میں کسی عورت کو طلاق دے کر اس کی جگہ کسی اور عورت سے نکاح کرلیں۔ حضرت انس ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے اور دیگر ائمہ تفسیر سے آیت بالا کی یہ تفسیر منقول ہے۔ حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کو اختیار دے دیا کہ چاہو تو دنیا لے لو اور چاہو تو میرے پاس رہو۔ جس کا ذکر آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ ) میں گذر چکا ہے اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ نے نفقہ کا مطالبہ چھوڑ کر آپ ہی کی زوجیت میں رہنا پسند کرلیا تو اللہ جل شانہٗ نے ان پر یہ انعام فرمایا کہ نبی ﷺ کی ذات گرامی کو بھی انہیں بیویوں کے لیے مخصوص فرما دیا جو اس وقت آپ ﷺ کے نکاح میں تھیں جن کی تعداد نو تھی ان کے سوا کسی سے آپ کے لیے نکاح جائز نہیں رکھا گیا۔ صاحب روح المعانی نے سنن بیہقی سے حضرت انس ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے پھر حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہی بات نقل کی ہے (جسہ اللّٰہ تعالیٰ علیھن کما جسھنّ علیہ ﷺ جب انہوں نے آپ ﷺ کی زوجیت میں رہنے کو اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبہ کی قدر دانی فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کو حکم دے دیا کہ ان کے نکاح میں ہوتے ہوئے یا ان میں سے کسی کو چھوڑ کر ان کے بدلہ میں کسی دوسری عورت سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے، ساتھ ہی (وَلَوْ اَعْحَبَکَ حُسْنُھُنَّ ) بھی فرما دیا یعنی ان کے علاوہ کسی عورت سے نکاح کرنا آپ کے لیے اب حلال نہیں ہے اگرچہ کسی عورت کا حسن آپ کو پسند آجائے۔ بعض حضرات نے آیت بالا کی دوسری تفسیر کی ہے وہ بھی حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے اور وہ یہ ہے کہ شروع آیت میں آپ کے لیے عورتوں کی جتنی اقسام حلال کی ہیں ان کے بعد یعنی ان کے علاوہ اور قسم کی عورتوں سے آپ کو نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے، اپنے خاندان کی عورتوں میں سے آپ ﷺ کے لیے صرف وہ عورتیں حلال کی گئیں جو مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئی تھیں غیر مہاجرات سے آپ کا نکاح حلال نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح غیر مومنہ یعنی اہل کتاب کی عورتوں سے آپ ﷺ کا نکاح جائز نہیں رکھا گیا۔ اور (مِنْ بَعْدُ ) کا مطلب یہ ہوا کہ جتنی قسمیں آپ کے لیے حلال کردی گئیں آپ انہیں میں سے کسی عورت سے نکاح کرسکتے ہیں، اگر یہ مطلب لیا جائے تو یہ کسی نئے حکم کا اعادہ نہیں ہے بلکہ پہلے حکم ہی کی تاکید اور توضیح ہے۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کے نکاح میں جو موجودہ نو عورتیں ہیں ان کے علاوہ کسی اور سے نکاح درست نہیں، اگر پہلی تفسیر مراد لی جائے تب بھی اس حکم کو منسوخ مانا گیا ہے۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ آپ کا وصال ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے دیگر خواتین سے نکاح کی اجازت دے دی تھی۔ (رواہ الترمذی فی تفسیر سورة الاحزاب) سرور دو عالم ﷺ کے لیے کثرت ازواج کی حکمت اور مصلحت یہود اور نصاریٰ اور دیگر مشرک اقوام جنہیں اسلام اور داعی اسلام جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے دشمنی ہے اسلام کا مقابلہ کرنے میں دلائل سے عاجز ہیں۔ عقائد اسلامیہ اور اعمال اسلامیہ کی خوبی پر اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے خلاف کوئی معقول اعتراض نہ کرسکے لیکن ان کے اکابر نے اپنے عوام کو اسلام سے دور رکھنے اور خود بھی دور رہنے کے لیے دو چار ایسے نا معقول قسم کے اعتراضات تراش لیے جو ان کے خیال میں بہت وزنی ہیں۔ ان اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے بہت سی شادیاں کی تھیں اور آپ کے نکاح میں بہت سی بیویاں تھیں۔ درحقیقت سب سے پہلے بنیادی بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے دلائل اور آپ کے معجزات کو دیکھنا چاہیے جن میں سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم نے چیلنج کیا ہے کہ قرآن جیسی کوئی سورت بنا کر لاؤ اگر تم سچے ہو ! آج جبکہ قرآن کے اس چیلنج کو ڈیڑھ ہزار سال کے قریب ہو رہے ہیں کوئی فرد یا جماعت اس کی مثل بنا کر نہیں لاسکی اور لا بھی نہیں سکتے کیونکہ قرآن نے ساتھ ہی (وَلَنْ تَفْعَلُوْا) بھی فرما دیا ہے۔ جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے کامل اور جامع دین پیش کیا۔ انسانی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی حالات کے قوانین بتائے، آداب بھی بتلائے اور اخلاق بھی سکھائے جبکہ آپ ﷺ نے کسی سے کچھ بھی نہیں پڑھا تھا کیا یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ واقعی آپ ﷺ اللہ کے رسول اور نبی ہیں۔ (لکن الناس یعاندون الحق) جب دلیل سے ثابت ہوگیا کہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ واقعی اور بلاشک و شبہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور نبی ہیں تو آپ کی ہر بات اور ہر عمل صحیح ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے موافق ہے، بندوں کے لیے قانون وضع فرمانے والا اور احکام بھیجنے والا اور بعض کو بعض احکام سے مستثنیٰ فرمانے والا وہی ہے۔ چونکہ وہ خالق اور مالک ہے اور سارے بندے اسی کی مخلوق ہیں اس لیے اسے اختیار ہے کہ جو احکام نافذ فرمائے اور جسے جس عمل کی اجازت دیدے جو دوسروں کے لیے نہ ہو۔ انہی امور میں رسول اللہ ﷺ کے لیے کثرت ازواج کا حلال ہونا بھی ہے، عام مومنین کو بشرط عدل چار بیویوں کی اجازت ہے اور آپ ﷺ کے لیے اس سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ پھر یوں فرمایا (لَایَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِھِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُھُنَّ اِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ ) (اس کے بعد آپ ﷺ کے لیے عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ آپ ان کے بدلہ دوسری بیویوں حاصل کرلیں اگرچہ آپ کو ان کا حسن بھاتا ہو، الایہ کہ کوئی آپ کی باندی ہو۔ ) یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر آپ بالفرض اللہ کے نبی نہیں تھے اور زیادہ بیویاں رکھنا محض نفسانی خواہشات کے لیے تھا تو آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھ پر آیت کریمہ (لَایَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ ) نازل ہوئی ہے اور مجھے اب آئندہ نکاح کرنے سے منع فرما دیا ہے، یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو شخص نفس ہی کا پابند ہوگا وہ اپنے اوپر ایسی پابندی کیوں لگائے گا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ آپ کے چچا حمزہ ؓ کی فلاں لڑکی بہت خوبصورت ہے اس سے نکاح فرمالیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا حمزہ ؓ میرے رضاعی بھائی ہیں ان کی لڑکی سے میرا نکاح حلال نہیں ہے، اسی طرح بعض ازواج نے اپنی بہن سے نکاح کرنے کی گذارش کی جسے آپ ﷺ نے نامنظور فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ جس کو شہوت رانی سے مطلب ہے وہ قاعدہ قانون اور حرام و حلال کی پرواہ نہیں کرتا خصوصاً جبکہ جو کچھ اس کی زبان سے نکل جاتا ہو اس کے معتقدین کے نزدیک وہی قانون بن جاتا ہو۔ پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ حضرات صحابہ کرام ] سب آپ کے فرمانبردار ہی نہیں بلکہ جان نثار بھی تھے اگر آپ ﷺ چاہتے تو بہت سی کنواری لڑکیوں سے نکاح ہوسکتا تھا لیکن آپ کے نکاح میں صرف ایک بیوی ایسی تھی جس سے کنوار پن میں نکاح ہوا یعنی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، ان سے نکاح کرنے سے امت کے لیے بہت احکام مشروع ہوگئے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بڑی عمر والے شخص کا کم عمر لڑکی سے نکاح جائز ہے۔ امام بخاری ؓ نے اس پر مستقل باب قائم کیا ہے، پھر یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ سسرال ہی میں میاں بیوی کا میل ہوسکتا ہے اور دن میں بھی ہوسکتا ہے۔ روایات حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے گھر میں تشریف لائے اور وہیں تنہائی اور یکجائی کا موقع دے دیا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے احکام ثابت ہوئے، آپ ﷺ قول سے بھی تعلیم دیتے تھے اور عمل سے بھی، آپ ﷺ امت کی رہبری نہ فرماتے تو کون بتانے والا تھا جبکہ سب کو آپ ہی کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نو سال آپ کے ساتھ رہیں، اس نو سال کے عرصہ میں انہوں نے بڑی بھاری تعداد میں روایات قولیہ اور فعلیہ کو محفوظ کیا اور پھر آپ ﷺ کی وفات کے بعد اڑتالیس سال تک ان کی تبلیغ فرمائی بڑی بھاری تعداد میں حضرات تابعین نے آپ سے علم حاصل کیا، آپ سے جو روایات مروی ہیں ان کی تعداد 22 سو سے زیادہ ہے، ہر سال حج کے لیے تشریف لے جاتی تھیں، منیٰ میں جو آپ کا خیمہ ہوتا تھا وہ ایک بہت بڑا مرکزی دارالعلوم بن جاتا تھا، ہمیشہ سے پوری امت مسلمہ آپ کی روایت کردہ قولی اور فعلی احادیث سے مستفید ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ تعداد ازواج کی وجہ سے تعلیمی اور تبلیغی فوائد جو امت کو حاصل ہوئے اور جو احکام امت تک پہنچے اس کی جزئیات اس قدر کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کا احصاء دشوار ہے کتب احادیث اس پر شاہد ہیں، البتہ بعض دیگر فوائد کی طرف یہاں ہم اشارہ کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نبی اکرم ﷺ کی رہبری کی ضرورت نہ ہو، نماز باجماعت سے لے کر بیویوں کے تعلقات، آل و اولاد کی پرورش اور پاخانہ و پیشاب اور طہارت تک کے بارے میں آپ ﷺ کی قولی اور فعلی ہدایات سے کتب حدیث بھرپور ہیں، اندرون خانہ کیے کیا کام کیا، بیویوں سے کیسے میل جول رکھا، اور گھر میں آکر مسائل پوچھنے والی خواتین کو کیا کیا جواب دیا۔ اس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں جن سے ازواج مطہرات ؓ کے ذریعہ ہی امت کو راہنمائی ملی ہے، تعلیم و تبلیغ کی دینی ضرورت کے پیش نظر حضور اقدس ﷺ کے لیے کثرت ازواج ایک ضروری امر تھا۔ حضرت ام سلمہ ؓ کے شوہر حضرت ابو سلمہ ؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا تھا، وہ اپنے سابق شوہر کے بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کے گھر تشریف لائیں، ان کے بچوں کی آپ ﷺ نے پرورش کی اور اپنے عمل سے بتادیا کہ کس پیار و محبت سے سوتیلی اولاد کی پرورش کرنی چاہیے۔ آپ ﷺ کی بیویوں میں صرف یہی ایک بیوی ہیں جو بچوں کے ساتھ آئیں، اگر کوئی بھی بیوی اس طرح کی نہ ہوتی تو عملی طور پر سوتیلی اولاد کی پرورش کی تعلیم کا خانہ خالی رہ جاتا اور امت کو اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہ ملتی۔ ان کے بیٹے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی گود میں پرورش پاتا تھا۔ ایک بار آپ ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے پیالہ میں ہر جگہ ہاتھ ڈال رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا (سَمِّ اللّٰہَ وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ ) (اللہ کا نام لے کر کھا داہنے ہاتھ سے کھا اور سامنے سے کھا۔ ) (بخاری و مسلم) حضرت ام سلمہ ؓ کی مرویات کی تعداد تین سو اٹھتر تک پہنچی ہوئی ہے۔ حضرت جویریہ ؓ ایک جہاد میں قید ہو کر آئی تھیں، دوسرے قیدیوں کی طرح یہ بھی تقسیم میں آگئیں، اور ثابت بن قیس یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں ان کو لگا دیا گیا، لیکن انہوں نے اپنے آقا سے اس طرح معاملہ کرلیا کہ اتنا اتنا مال تم کو دوں گی مجھے آزاد کردو، یہ معاملہ کرکے حضور ﷺ کے پاس آئیں اور مالی امداد کی درخواست کی، آپ ﷺ نے فرمایا اس سے بہتر تمہیں بات نہ بتادوں ؟ وہ یہ کہ میں تمہاری طرف سے مال ادا کردوں اور تم سے نکاح کرلوں، انہوں نے بخوشی منظور کرلیا، آپ ﷺ نے ان کی طرف سے مال ادا کرکے نکاح فرمالیا، ان کی قوم کے سینکڑوں افراد حضرات صحابہ ؓ کی ملکیت میں آچکے تھے کیونکہ وہ سب لوگ قیدی ہو کر آئے تھے، جب صحابہ ؓ کو پتہ چلا کہ جویریہ ؓ آپ ﷺ کے نکاح میں آگئی ہیں تو آنحضرت ﷺ کے احترام کے پیش نظر سب نے اپنے اپنے غلام باندی آزاد کردئیے۔ سبحان اللہ ! حضرات صحابہ کرام ؓ کے ادب کی کیا شان تھی، اس جذبہ کے پیش نظر کہ یہ لوگ اب سرکار دو عالم ﷺ کے سسرال والے ہوگئے ہیں ان کو غلام بنا کر کیسے رکھیں، سب کو آزاد کردیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اس واقعہ کے متعلق فرماتی ہیں : (فلقد اعتق بتزوجہ ایاھا ماءۃ اھل بیت من بنی مصطلق فما اعلم امرأۃ اعظم برکۃ علیٰ قومھا منھا (الاستیعاب والاصابہ) (آنحضرت ﷺ کے جویریہ ؓ سے نکاح کرلینے سے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد ہوئے، میں نے کوئی عورت ایسی نہیں دیکھی جو جویریہ ؓ سے بڑھ کر اپنی قوم کے لیے بڑی برکت والی ثابت ہوئی ہو۔ ) حضرت ام حبیبہ ؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ ابتداء اسلام ہی میں مکہ میں اسلام قبول کیا تھا اور پھر دونوں میاں بیوی ہجرت کرکے قافلے کے دوسرے افراد کے ساتھ حبشہ چلے گئے وہاں ان کا شوہر نصرانی ہوگیا اور چند دن کے بعد مرگیا، آنحضرت ﷺ نے شاہ حبشہ نجاشی کے واسطہ سے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا جسے انہوں نے قبول کرلیا اور وہیں حبشہ میں نجاشی ہی نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان کا نکاح کردیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ حضرت ابو سفیان ؓ کی صاحبزادی تھیں اور حضرت ابو سفیان ؓ اس وقت اس گروہ کے سرخیل تھے جس نے اسلام دشمنی کو اپنا سب سے بڑا مقصد قرار دیا تھا اور وہ مسلمانوں کو اور پیغمبر خدا کو اذیت دینے سے باز نہیں آتے تھے اور انہیں فنا کے گھاٹ اتار دینے کی فکر میں رہتے تھے، جب ان کو اس نکاح کی اطلاع ہوئی تو بلا اختیار ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے : (ھُوَ الْفَحْلُ لَا یُجْدَعُ اَنْفُہٗ ) (یعنی محمد ﷺ جوان مرد ہیں ان کی ناک نہیں کاٹی جاسکتی) مطلب یہ کہ وہ بلند ناک والے معزز ہیں ان کو ذلیل کرنا آسان نہیں، ادھر تو ہم ان کو ذلیل کرنے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں ادھر ہماری لڑکی ان کے نکاح میں چلی گئی۔ غرض اس نکاح سے کفر کے ایک قائد کے حوصلے پست ہوگئے اور اس نکاح کی وجہ سے جو سیاسی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچا اس کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ خدا کے مدبر اور حکیم رسول ﷺ نے اس فائدہ کو ضرور پیش نظر رکھا ہوگا۔ اور اس کثرت ازواج کی حقیقت بھی سن لیجیے کہ کس طرح وجود میں آئی پچیس سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر شریف ہونے تک تنہا حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کی زوجہ ہیں، ان کی وفات کے بعد حضرت سودہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے نکاح ہوا لیکن صغر سنی کی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ اپنے والد کے گھر ہی رہیں، پھر چند سال کے بعد 2 ہجری میں مدینہ منورہ میں حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی، اس وقت آپ ﷺ کی عمر چون سال ہوچکی ہے اور دو بیویاں اس عمر میں جمع ہوئی ہیں، یہاں سے تعدد ازواج کا معاملہ شروع ہوا، اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ ؓ سے نکاح ہوا پھر کچھ ماہ بعد حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ سے نکاح ہوا، انہوں نے صرف اٹھارہ ماہ آپ کے نکاح میں رہ کر وفات پائی، ایک قول کے مطابق تین ماہ آپ ﷺ کے نکاح میں زندہ رہیں پھر 4 ہجری میں حضرت ام سلمہ ؓ سے نکاح ہوا۔ پھر 5 ہجری میں حضرت زینب بنت جحش ؓ سے نکاح ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون سال ہوچکی تھی اور اتنی بڑی عمر میں آکر چار بیویاں جمع ہوئیں، ان کے بعد 6 ہجری میں حضرت جویریہ ؓ سے اور 7 ہجری میں حضرت ام حبیبہ ؓ اور حضرت میمونہ ؓ سے نکاح ہوا۔ خلاصہ یہ کہ چون برس کی عمر تک آپ ﷺ نے صرف ایک بیوی کے ساتھ گزارہ کیا یعنی پچیس سال حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ اور چار پانچ سال حضرت سودہ ؓ کے ساتھ گزارے، پھر اٹھاون سال کی عمر میں چار بیویاں جمع ہوئیں اور باقی ازواج مطہرات ؓ دو تین سال کے اندر حرم نبوت میں آئیں اور 10 ہجری میں آپ ﷺ نے وفات پائی۔ اور یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ ان سب بیویوں میں صرف ایک ہی عورت ایسی تھی جن سے کنوارے پن میں نکاح ہوا یعنی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، ان کے علاوہ باقی سب ازواج مطہرات ؓ بیوہ تھیں جن میں بعض کے دو شہر پہلے گزر چکے تھے، اور یہ تعداد بھی آخر عمر میں آکر جمع ہوئی۔ اسلام کے بلند مقاصد اور پورے عالم کی انفرادی و اجتماعی، خانگی اور ملکی اصلاحات کی فکر کو دنیا کے شہوت پرست انسان کیا جانیں، وہ تو سب کو اپنے اوپر قیاس کرسکتے ہیں، اسی کے نتیجے میں کئی صدی سے یورپ کے ملحدین اور مستشرقین نے اپنی ہٹ دھرمی سے فخر عالم ﷺ کے تعدد ازواج کو ایک خالص جنسی اور نفسانی خواہش کی پیداوار قرار دے رکھا ہے۔ اگر حضور اقدس ﷺ کی سیرت پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو ایک ہوشمند منصف مزاج کبھی بھی آپ ﷺ کی کثرت ازواج کو اس پر محمول نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺ کی معصوم زندگی قریش کے سامنے اس طرح گزری کہ سب سے پہلے پچیس سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ صاحب اولاد بیوہ (جس کے دو شوہر فوت ہوچکے تھے) سے عقد کیا اور پچیس سال تک ان ہی کے ساتھ گزارہ کیا، وہ بھی اس طرح کہ مہینہ مہینہ گھر چھوڑ کر غار حرا میں مشغول عبادت رہتے تھے، اس کے بعد جو دوسرے نکاح ہوئے پچاس سال عمر شریف گزر جانے کے بعد ہوئے، یہ پچاس سالہ زندگی اور عنفوان شباب کا سارا وقت اہل مکہ کی نظروں کے سامنے تھا، کبھی کسی دشمن کو بھی آنحضرت ﷺ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں ملا جو تقویٰ و طہارت کو مشکوک کرسکے، آپ ﷺ کے دشمنوں نے آپ ﷺ پر ساحر، شاعر، مجنون، کذاب، مفتری جیسے الزامات تراشنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن آپ ﷺ کی معصوم زندگی کے بارے میں کوئی ایک حرف کہنے کی بھی جرأت نہیں ہوئی جس کا تعلق جنسی اور نفسانی جذبات کی بےراہ روی سے ہو۔ ان حالات میں کیا یہ بات غور طلب نہیں ہے کہ چڑھتی جوانی سے لے کر پچاس سال کی عمر ہوجانے تک اس زہد وتقویٰ اور لذائذ دنیا سے یکسوئی میں گزارنے کے بعد وہ کیا داعیہ تھا جس نے آخر عمر میں آپ ﷺ کو متعدد نکاحوں پر آمادہ کیا، اگر دل میں ذرا سا بھی انصاف ہو تو ان متعدد نکاحوں کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں بتلائی جاسکتی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ (وَمَا یَتَذَکَّرُ اِِلَّا مَنْ یُّنِیبُ )
Top