Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بیشک اللہ تمہیں حکم فرماتا ہے کہ امانت والوں کو امانتیں دے دیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلے کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس چیز کی تمہیں نصیحت فرماتا ہے وہ بہت اچھی ہے بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
امانت کی ادائیگی اور فیصلوں میں انصاف کا حکم اس آیت کے سبب نزول میں حضرات مفسرین کرام نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ فتح مکہ کے دن آنحضرت سرور عالم ﷺ نے عثمان بن طلحہ حجبی سے کعبہ شریف کی چابی لے لی تھی۔ (ان کے خاندان میں عرصہ دراز سے کعبہ شریف کے کھولنے اور بند کرنے کی خدمت آرہی تھی جس کو اہل عرب سدانۃ البیت کے نام سے تعبیر کرتے تھے) آپ کعبہ شریف میں داخل ہوئے وہاں نماز پڑھی جب باہر نکلے تو حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ چابی ہمیں دے دیجیے تاکہ بنی ہاشم میں سقایۃ الحاج (حاجیوں کو پانی پلانا) اور سدانۃ البیت دونوں جمع ہوجائیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ عباس بن عبدالمطلب نے یہ سوال کیا تھا۔ آپ نے ان دونوں میں سے کسی کو چابی نہ دی۔ جب آپ کعبہ شریف سے باہر تشریف لائے تو آیت بالا (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَھْلِھَا) تلاوت فرما رہے تھے۔ رب العالمین جل مجدہ کے فرمان کے مطابق آپ نے چابی اسی کو دے دی جس سے لی تھی۔ جب آپ نے ان کو چابی عطا فرمائی تو فرمایا خذوھا یا بنی ابی طلحۃ بامانۃ اللّٰہ لا ینزعھا منکم الا ظالم (اے بنی طلحہ اس چابی کو اللہ کی امانت کے طور پر لے لو اس چابی کو تم سے ظالم کے علاوہ کوئی نہیں چھینے گا) ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا خذوھا یا بنی ابی طلحۃ خالدۃً قالدۃً (اے بنی ابی طلحہ اس کو ہمیشہ کے لیے لے لو تو یہ تمہارے لیے خاندانی میراث ہے) اس کے بعد سے آج تک یہ چابی انہیں کے خاندان میں ہے جس کے پاس چابی ہوتی ہے۔ اہل مکہ اس کو شیبی کہتے ہیں۔ عثمان بن طلحہ کے والد ابو طلحہ تھے جن کا نام عبداللہ بن عبدالعزیٰ تھا اور عثمان شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ یہ شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ ہیں۔ جن کے خاندان میں اب تک کعبہ شریف کی کلید برداری چلی آرہی ہے اور اسی لیے اس خاندان کو شیبی خاندان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن طلحہ سے ہی چابی لی تھی اور درمیان میں حضرت علی حضرت عباس ؓ اس کے طالب بن گئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ امانت کو امانت والوں کے پاس پہنچاؤ۔ (تفسیر درمنثور صفحہ 174: ج 2) (تفسیر ابن کثیر صفحہ 515: ج 1) (اسباب النزول للواحدی صفحہ 151) قرآن مجید کی متعدد آیات میں ادائے امانت کا حکم فرمایا ہے اور خیانت کرنے والوں کی مذمت کی ہے، سورة الانفال میں ارشاد فرمایا (یٰٓا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) اے ایمان والو ! تم اللہ اور اس کے رسول کے حقوق میں خیانت نہ کرو اور آپس کی امانتوں میں خیانت نہ کرو حالانکہ تم جانتے ہو۔ سورة یوسف میں فرمایا (وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخَآءِنِیْنَ ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے فریب کو راہ نہیں دیتا۔ سورة انفال میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآءِنِیْنَ ) بلاشبہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ سورة حج میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ خیانت کرنے والے ناشکرے کو پسند نہیں فرماتا۔ سورة معارج میں اچھے لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِھِمْ رَاعُوْنَ ) اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ امانتوں کی تفصیل : سورة نساء کی آیت بالا اور دیگر آیات جو ہم نے نقل کی ہیں ان سب سے عمومی طور پر ہر قسم کی امانتوں کی ادائیگی کا حکم اور ہر قسم کی خیانت کی مذمت معلوم ہوئی۔ اللہ کے حقوق جو بندوں پر ہیں نماز، زکوٰۃ، روزے کفارات نذر اور ان کے علاوہ بہت سی چیزیں یہ سب امانتیں ہیں۔ جن کی ادائیگی یا اضاعت ہر شخص کو معلوم ہوتی ہے کہ میں نے کس حکم پر عمل کیا اور کس حکم کی حکم عدولی کی، دوسروں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح سے آپس میں حقوق العباد جو ایک دوسرے پر واجب ہیں وہ بھی امانتیں ہیں ان کی ادائیگی فرض ہے، کسی نے مال امانت رکھ دیا قرض دے دیا یا کسی سے مال غصب کرلیا یا کسی کے مال میں خیانت کرلی یا چوری کرلی یہ سب اموال امانتیں ہیں ان کی ادائیگی فرض ہے حکام کو بلکہ صاحب مال کو معلوم ہو یا نہ ہو ہر شخص اپنے اپنے متعلقہ احکام میں امانتدار ہے چھوٹے بڑے حکام اور ملوک اور رؤسا اور وزراء امانتدار ہیں۔ انہوں نے جو عہدے اپنے ذمہ لیے ہیں وہ ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے مطابق پوری کریں۔ کسی بھی معاملے میں عوام کی خیانت نہ کریں۔ اسی طرح سے بائع اور مشتری اور سفر کے ساتھی اور پڑوسی اور میاں بیوی اور ماں باپ اور اولاد سب ایک دوسرے کے مال کے اور دیگر متعلقہ امور کے امانتدار ہیں جو بھی کوئی کسی کی خیانت کرے گا گنہگار ہوگا اور میدان آخرت میں پکڑا جائے گا۔ سورة بقرہ میں ارشاد فرمایا (فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ) سو اگر تم میں سے ایک دوسرے پر اعتماد کرے تو جس پر اعتماد کیا گیا وہ دوسرے کی امانت کو ادا کر دے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے۔ امانتداری ایمانی تقاضوں میں سے ہے : حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے خطاب فرمایا ہو اور یہ نہ ارشاد فرمایا ہو کہ لا ایمان لمن لا امانۃ لہ و لا دین لمن لا عھدلہ (اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح عن البیہقی فی شعب الایمان صفحہ 15) صحیح مسلم صفحہ 56: ج 1 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں اگرچہ نماز پڑھے اور روزے رکھے اور وہ یہ خیال کرے کہ میں مسلمان ہوں۔ (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (3) اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں چار چیزیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہوگی تو یوں سمجھا جائے گا کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ (1) اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (3) جب عہد کرے تو دھوکہ دے۔ (4) جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے۔ (صحیح بخاری صفحہ 10: ج 1) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب تیرے اندر چار خصلتیں ہوں تو تجھے اس بات کا ضرر نہیں کہ دنیا کی باقی چیزیں تیرے پاس نہیں ہیں۔ (1) امانت کی حفاظت (2) بات کی سچائی (3) اخلاق کی خوبی (4) لقمے کی پاکیزگی۔ (رواہ احمد و البیہقی فی شعب الایمان) مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت لقمان حکیم سے کسی نے پوچھا کہ آپ علم و فضل کے اس مرتبے پر کیسے پہنچے انہوں نے جواب میں فرمایا کہ بات کی سچائی، امانت کی ادائیگی اور لایعنی سے پرہیز ان تینوں کی وجہ سے میں اس مرتبہ پر پہنچا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 445) اداروں کے اموال کی حفاظت میں امانتداری : جن لوگوں کے ہاتھوں میں دوسروں کے اموال ہیں ان میں ملوک اور حکام بھی ہیں۔ اور یتیموں کے اولیاء بھی۔ مسجدوں کے متولی بھی اور مدارس کے مہتمم بھی۔ اور بیت المال کے نگران بھی۔ اور کہیں پر پڑا ہوا مال اٹھانے والے بھی۔ اور بہت سے عہدیدار ہیں جن پر دوسروں کے مالوں کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہ سب لوگ اس بات کے مامور ہیں کہ مالوں کی حفاظت کریں اور ذرا سی بھی خیانت نہ کریں۔ امانت کی حفاظت اور اس کی ادائیگی بہت بڑی ذمہ داری ہے، یہ سارے عہدے جنہیں دنیا میں خوشی خوشی قبول کرلیا جاتا ہے۔ پھر ان سے متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا جاتا قیامت کے دن وبال بن جائیں گے۔ حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے کسی عمل پر نہیں لگاتے ؟ (یعنی مجھے کوئی عہدہ نہیں عنایت فرماتے ؟ ) اس پر آنحضرت ﷺ نے ان کے مونڈھے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا اے ابو ذر ! تو ضعیف ہے اور بلاشبہ یہ عہدہ امانت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا ذریعہ ہوگا سوائے اس شخص کے جس نے حق کے ساتھ لیا اور متعلقہ ذمہ داری کو پورا کیا۔ اور ایک روایت یوں ہے کہ آپ نے فرمایا اے ابو ذر ! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہ پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں دو آدمیوں کا امیر مت بننا اور یتیم کے مال کا متولی نہ ہونا۔ (رواہ مسلم) نااہلوں کو عہدے دینا خیانت ہے : بہت سے لوگ نا اہلوں کو اپنی کوشش سے یا اپنے اقتدار سے چھوٹے بڑے عہدے دے دیتے ہیں یا دلا دیتے ہیں حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ جس کو عہدہ دیا جا رہا ہے۔ یہ اس عہدہ کا اہل نہیں ہے یہ عہدہ ایک امانت ہے اس کی ذمہ داری بہت بڑی ہے لیکن دنیاوی تعلقات اور دنیاوی منافع کے پیش نظر جو فاسقوں، فاجروں ظالموں بےنمازیوں کو عہدے دیئے اور دلا دیے جاتے ہیں، یہ سب امانت میں خیانت ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جسے اقتدار سپرد کردیا جاتا ہے جب وہ عہدے تقسیم کرنے لگتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ جسے اقتدار سپرد کیا جا رہا ہے یہ شریعت اسلامیہ سے واقف ہے یا ناواقف ہے اس کے عقائد اسلامی ہیں یا غیر اسلامی جس کو عہدہ دیا جا رہا ہے اس پر خدا ترسی کی شان ہے بھی یا نہیں اور یہ دین پر چلے گا یا نہیں عوام کے ساتھ اس کا سلوک اچھا ہوگا یا برا۔ عہدہ سپرد کرنے میں رشتہ داریاں اپنی اپنی پارٹی کا آدمی دیکھا جاتا ہے یا وطنی عصبیتوں کی رعایت کی جاتی ہے، یعنی صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارا آدمی ہے۔ اپنوں کو نوازنا مقصود ہوتا ہے دین خداوندی پر چلنے اور چلانے اور امت مسلمہ کے ساتھ عدل و انصاف اور خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات کا کہیں سے کہیں تک بھی دھیان نہیں ہوتا۔ اس لیے سارے فیصلے غیر شرعی ہوتے ہیں اور عوام عہدہ داروں کے ظالمانہ فیصلوں کو بھگتتے رہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے متعلقہ امور سے جو شخص کسی امر کا والی بنا پھر اس نے ان پر کسی شخص کو (ذاتی) مروت اور تعلقات کی بنا پر امیر بنا دیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اس سے کوئی فرض یا نفل قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اللہ اس کو دوزخ میں داخل فرما دے گا۔ (الترغیب و الترہیب صفحہ 179) پھر جن لوگوں کے سیاسی وعدے ہوتے ہیں جب عہدہ مل جاتا ہے تو عوام پر ظلم بھی کرتے ہیں اور وعدہ فراموشی بھی کرتے ہیں اور عذر بھی کرتے ہیں، اس بارے میں جو ارشادات نبویہ ہیں ان سب کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ حضرت معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مامن وال یلی رعیۃ من المسلمین فیموت و ھو غاشٌ لھم الاحرم اللّٰہ علیہ الجنۃ (صحیح بخاری صفحہ 1052: ج 4) جو بھی کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی بنا (یعنی ان کی دیکھ بھال اس کے ذمہ کی گئی) پھر وہ اس حال میں مرگیا کہ وہ ان کے ساتھ خیانت کرنے والا تھا تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : مامن عبد یسترعیۃ رعیۃ فلم یحطھا بنصیحۃ الالم یجد رائحۃ الجنۃ۔ ” جس کسی بندہ کو اللہ نے چند افراد کا نگہبان بنایا پھر اس نے ان لوگوں کو اچھی طرح خیر خواہی نہ کی تو جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا۔ “ (صحیح بخاری صفحہ 1059۔ 1058: ج 2) رعیت کو دھوکہ دینے کے بارے میں حدیث ذیل پڑھئیے۔ عن سعد رضی اللّٰہ عنہ عن النبی قال لکل غادر لواء عند استہ یوم القیامۃ و فی روایۃ لکل غادر لواء یوم القیامۃ یرفع لہ بقدر غدرہ الا ولا غادر اعظم غدراً من امیر عامۃ۔ ” حضرت سعید ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ قیامت کے دن ہر دھوکہ دینے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جو اس کے پاخانہ کے مقام پر نصب کیا جائے گا وہ اس کے دھوکہ کے بقدر بلند کیا جائے گا (پھر فرمایا) خبردار جو شخص عوام کا امیر ہو اس کے غدر یعنی دھوکے سے بڑھ کر کسی کا غدر نہیں۔ “ (رواہ مسلم کما فی المشکوٰۃ صفحہ 323) کام پورا نہ کرنا اور تنخواہ پوری لینا خیانت ہے : جو لوگ تنخواہ پوری لیتے ہیں اور کام پورا نہیں کرتے یا وقت پورا نہیں دیتے یہ سب لوگ خیانت کرنے والے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ رشوت لیتے ہیں اور رشوت لینے کی وجہ سے کار مفوضہ انجام دینے کی بجائے رشوت دینے والے کی مرضی کے مطابق اس کا کام کردیتے ہیں، یہ لوگ بھی خیانت کرنے والے ہیں، رشوت حرام ہے ہی ملازمت کی تنخواہ بھی پوری حلال نہیں ہوتی کیونکہ جس کام کی تنخواہ دی جاتی ہے اس کے خلاف کام کرتے ہیں۔ درحقیقت امانتداری کی صفت بہت بڑی صفت ہے اور اس کو پورا کرنا ایمان کا بہت بڑا مطالبہ ہے۔ یہ ایسی عظیم صفت ہے۔ جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ یہ صفت صرف مالیات ہی سے متعلق نہیں۔ مجلسیں امانت کے ساتھ ہیں : دیگر امور میں بھی آنحضرت ﷺ نے امانتداری پر قائم رہنے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ المجالس بالامانۃ کہ مجلسیں امانت کے ساتھ ہیں (رواہ ابو داؤد فی کتاب الادب) یعنی مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں ان کو مجلس سے باہر لے جانا اور تجھ مجھ سے بیان کردینا امانتداری کے خلاف ہے اور اہل مجلس کی خیانت ہے ہاں اگر مجلس میں کسی کا خون کرنے کا یا زنا کاری کا یا کسی کا ناحق مال حاصل کرنے کا مشورہ کیا گیا ہو تو اس کو دوسروں سے بیان کرسکتا ہے تاکہ اس گناہ پر عمل نہ ہو وقد ذاد فی الحدیث الاثلثۃ مجالس سفک دم حرام و فرج حرام او اقتطاع مال بغیر حق ایک حدیث میں ہے کہ جب کسی آدمی نے کوئی بات کہی پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا (کہ کوئی سن تو نہیں رہا) تو یہ بات امانت ہے۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد) مشورہ دینا امانت ہے : اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : ان المستشار مؤتمن کہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہوتا ہے (رواہ الترمذی فی ابواب الزہد) مطلب یہ ہے کہ جس سے مشورہ لیا جائے اس پر واجب ہے کہ صحیح مشورہ دے جو اس کے نزدیک مشورہ لینے کے حق میں بہتر ہو۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسی بات کا مشورہ دیا جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ مشورہ مصلحت کے خلاف ہے تو اس نے مشورہ لینے والے کی خیانت کی۔ (اخرجہ ابو داؤد فی کتاب العلم) بلا اجازت کسی کے گھر میں نظر ڈالنا خیانت ہے : آنحضرت سرور عالم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تین کام ایسے ہیں کہ جن کا کرنا کسی کے لیے حلال نہیں : (1) جو شخص کسی جماعت کا امام بنے پھر ان کو چھوڑ کر صرف اپنے لیے ہی دعا کرے اگر ایسا کیا تو اس نے خیانت کی۔ (2) جو شخص اجازت لیے بغیر کسی گھر میں نظر ڈالے اگر اس نے ایسا کیا تو گھر والوں کی خیانت کی۔ (3) کوئی شخص پیشاب پاخانہ رو کے ہوئے نماز نہ پڑھے جب تک ہلکا نہ ہوجائے (یعنی ان سے فارغ نہ ہوجائے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 96) ان احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ اموال کے علاوہ دیگر امور میں بھی امانت داری کی صفت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ عدل و انصاف کا حکم : ادائیگی امانت کا حکم فرمانے کے بعد فیصلوں میں عدل و انصاف کرنے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا (وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بالَعَدْلِ ) (اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرو) شریعت اسلامیہ میں جن امور کا بہت زیادہ اہمیت اور تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے ان میں انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا بھی ہے۔ عدل و انصاف کرنے والوں کو بلند مراتب کی خوشخبری دی گئی ہے اور ظالمانہ فیصلے کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور ان کے لیے بڑی بڑی وعیدیں ہیں اللہ تعالیٰ شانہ نے جو فیصلوں کے قوانین اپنی کتاب اور اپنے رسول ﷺ کے ذریعہ بھیجے ہیں ان کے مطابق فیصلے کرنے ہی سے انصاف ہوگا، نیز اللہ کے قانون میں جس کی جو چیز ہو اور جس کا جو حق ہو وہ حق اور وہ چیز مستحق کو دلانے سے انصاف قائم ہوگا۔ قرآن و حدیث کے خلاف فیصلے ظالمانہ ہیں : انسانوں نے اپنی طرف سے جو دسا تیر اور قوانین بنائے ہیں عموماً وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہیں۔ قرآن و حدیث کے خلاف فیصلے کرنا ظلم ہے۔ اگرچہ اہل دنیا اسے انصاف ہی کہتے ہوں۔ میراث اور وصیت دیت اور قصاص حدود اور جنایات کے شرعی قوانین، تجارت زراعت سے متعلقہ احکام نکاح و طلاق کے مسائل، حکومت سپرد کرنے اور حکومت چلانے کے قوانین اور انسانی زندگی میں جو کچھ پیش آتا ہے اس کے اصول و قواعد جو شریعت اسلامیہ نے بتائے ہیں ان کے خلاف فیصلے دینا ظلم ہے۔ سورة مائدہ میں فرمایا (وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) (اور جو شخص اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا تو یہ لوگ ظلم کرنے والے ہیں) جن ملکوں میں کافروں کی عملداری ہے وہاں تو اللہ کی شریعت کے خلاف فیصلے ہوتے ہی ہیں لیکن جن ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اقتدار دیا ہے وہاں کے ذمہ دار بھی اسلامی احکام کو قبول کرنے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن جب ان کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ اسلامی قوانین نافذ کرو تو کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ عوام جو مغربی قوانین کے مطابق فیصلوں کے باعث ظلم سہتے ہیں وہ بھی اسلامی نظام نافذ کرنے کے حق میں نہیں۔ دعویٰ مسلمان ہونے کا کرتے ہیں اور قوانین اور احکام دشمنان دین کے نافذ کرتے ہیں۔ سورة مائدہ میں فرمایا (اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ) (کیا پھر یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور فیصلہ کرنے میں اللہ سے اچھا کون ہوگا، یقین رکھنے والوں کے لیے۔ ) ظالمانہ فیصلوں کی وجہ سے مصائب کی کثرت : اب جو غیر اسلامی فیصلے ہو رہے ہیں ان کی وجہ سے آفات اور مصائب کا طوفان آیا ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے اندر پانچ چیزیں موجود ہوجائیں اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ چیزیں تمہارے اندر موجود ہوں : (1) جس قوم میں زنا کاری کھلم کھلا ہونے لگے گی ان میں طاعون پھیل جائے گا اور ایسے ایسے مرض ظاہر ہوجائیں گے جو ان کے آباؤ اجداد میں نہیں تھے۔ (2) اور جو لوگ زکوٰۃ دینا روک دیں گے ان کو آسمان کے قطروں سے یعنی بارش سے محروم کردیا جائے گا۔ اگر چوپائے نہ ہوں تو (بالکل بھی) بارش نہ ہو۔ (3) اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کو قحط بھیج کر سزا دی جائے گی اور ان کو سخت محنت اور صاحب اقتدار کے ظلم میں مبتلا کردیا جائے گا۔ (4) اور جس قوم کے امراء اس فیصلے کے علاوہ کوئی فیصلہ کریں گے جو اللہ نے نازل فرمایا تو اللہ تعالیٰ ان پر دشمن مسلط فرما دے گا پھر یہ دشمن ان کے قبضے کی بعض چیزوں پر قبضہ کرلیں گے۔ (5) اور جو لوگ اللہ کی کتاب کو اور اس کے نبی کی سنت کو معطل کردیں گے یعنی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال کی صورت پیدا فرما دیں گے۔ (ذکرہ المنذری فی الترغیب و الترھیب صفحہ 30: ج 3 وعزاہ الی البیھقی و قال فی آخرہ رواہ الحاکم بنحوہ من حدیث بریدۃ و قال صحیح علی شرط مسلم) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جس کسی قوم میں خیانت ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتے ہیں اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگتے ہیں ان کا رزق کاٹ دیا جاتا ہے اور جو لوگ ظلم کے فیصلے فیصلہ کرتے ہیں ان میں خونریزی پھیل جاتی ہے اور جو لوگ عہد شکنی کرتے ہیں ان پر دشمن مسلط کردیا جاتا ہے۔ (رواہ مالک فی الموطا وھو موقوف فی حکم المرفوع) تقویٰ کے بغیر انصاف نہیں ہوسکتا انصاف جبھی ہوسکتا ہے جبکہ اللہ کا خوف ہو، تقویٰ ہو، حق کا اتباع مقصود ہو، قرآن و حدیث کا علم ہو قضا کے احکام اور مسائل سے واقفیت ہو۔ امیر و غریب اپنے پرائے، چھوٹے بڑے کی کوئی رعایت نہ ہو، عادلانہ فیصلے کا معیار ایک حدیث میں یوں بتایا وحکموا للناس کحکمھم لانفسھم کہ لوگوں کے درمیان وہی فیصلے کرتے ہیں جو اپنی جانوں کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 322) مطلب یہ ہے کہ جیسے اپنے لیے حق و انصاف چاہتے ہیں اسی طرح جب دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے لگیں تب بھی حق و انصاف اختیار کریں۔ آج کل فیصلہ اس کے حق میں ہوتا ہے جو ہم وطن ہو یا ہم پیشہ ہو یا ہم زبان ہو ایسے حاکم کے لیے آخرت میں سخت عذاب ہے جو ظلم کا فیصلہ دے اور ظالم کا ساتھی بنے اور اس کی رعایت کرے جس سے کسی قوم کا تعلق ہو اور جس کا واقعی شرعی حق بنتا ہوا سے حق سے محروم کر دے، رشوتیں لے کر بھی فیصلے دیئے جاتے ہیں جس نے رشوت دے دی موٹی رقم پکڑا دی اس کے حق میں فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہ رشوتیں اور موٹی رقمیں نوٹوں کے گڈے دنیا میں اچھے لگتے ہیں لیکن آخرت میں جو ان کا وبال ہوگا اس کی طرف سے بیخبر ہیں۔ انصاف کے فیصلے کرنے والوں کے لیے بشارت اور ظالموں کی ہلاکت : جیسے ظلم کرنے والوں کے لیے وعیدیں ہیں ایسے ہی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق فیصلے کرنے والوں کے لیے بشارتیں ہیں حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قاضی (فیصلہ دینے والے) تین قسم کے ہیں ان میں سے ایک جنت میں ہے اور دو دوزخ میں ہیں، جنت والا تو وہ شخص ہے جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا اور ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے حق کو پہچانا اور ظلم کا فیصلہ کیا سو یہ شخص دوزخ میں ہوگا اور ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو جہالت کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے (اس کو حق ناحق کا کچھ پتہ نہیں) سو یہ بھی دوزخ میں ہوگا۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی و ابن ماجہ کما فی الترغیب صفحہ 156: ج 3) جن سات آدمیوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن وہ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن اللہ کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں سب سے پہلے امام عادل کا ذکر ہے یعنی مسلمانوں کا وہ اعلیٰ اقتدار والا شخص جو انصاف کرنے والا ہو۔ (رواہ البخاری صفحہ 191: ج 1) رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ اہل جنت تین قسم کے لوگ ہوں گے : (1) وہ صاحب اقتدار جو انصاف والا ہے اور اسے خیر کی توفیق دی گئی ہے۔ (2) وہ شخص جو رحم کرنے والا ہے نرم دل ہے، ہر قرابت دار کے لیے جو مسلمان ہو۔ (3) وہ شخص جو صاحب اہل و عیال ہوتے ہوئے (حرام سے اور سوال سے) پرہیز کرنے والا ہو اور پرہیز کرنے کا اہتمام کرتا ہو۔ (رواہ مسلم کما فی الترغیب صفحہ 167: ج 3) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کو سب سے زیادہ پیا را اور اللہ سے سب سے زیادہ قریب مجلس کے اعتبار سے امام عادل ہوگا اور اللہ کو سب سے زیادہ مبغوض اور مجلس کے اعتبار سے اللہ سے سب سے زیادہ دور امام جائر ہوگا۔ (الترغیب صفحہ 167: ج 3 عن الترمذی و الطبرانی) حاکم جائر سے مراد ہے ظلم کرنے والا شخص جسے اقتدار اعلیٰ حاصل ہو۔ حاکم بننا اور فیصلے کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لینا یہ معمولی چیز نہیں یہ ذمہ داری بہت بڑی ہے اور آخرت میں اس کا حساب بہت بڑا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے والا مقرر کردیا گیا تو وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ کما فی المشکوٰۃ صفحہ 324) مطلب یہ ہے کہ اس عہدے کا انجام بہت برا ہے عام طور سے لوگ عدل و انصاف پر قائم نہیں رہتے قیامت کے دن یہ عہدہ و بال بنے گا اور اس عہدے کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے پر جو عذاب ہوگا اس کو اس دنیا میں اس طرح سمجھ لیا جائے جیسے کسی کو چھری کی بجائے (دھار دار آلے کے علاوہ) کسی چیز سے ذبح کردیا جائے چھری سے ذبح کرنے کی تکلیف ذرا دیر ہوتی ہے لیکن اگر بغیر چھری کے ذبح کیا جائے تو اس کی تکلیف بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔ حاکموں کو ضروری تنبیہ : اس حدیث پر ہر وہ شخص غور کرے جو حاکم و قاضی و مجسٹریٹ بنا ہوا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جو بھی کوئی حاکم لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے قیامت کے دن اسے لایا جائے گا پھر جہنم کے کنارے پر اسے کھڑا کردیا جائے گا پھر اگر حکم ہوگا کہ اسے دھکا دے دیا جائے تو اس کو دھکیل دیا جائے گا جس کے نتیجے میں وہ ستر سال تک گہرائی میں گرتا چلا جائے گا۔ (رواہ البزار کما فی الترغیب صفحہ 183: ج 3) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انصاف کرنے والے قاضی پر قیامت کے دن ضرور ایک ایسی گھڑی آئے گی کہ وہ حساب کی سختی کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ میں کبھی کسی ایک کھجور کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کرتا تو اچھا تھا۔ (الترغیب صفحہ 157: ج 3) حاکم کیسے شخص کو بنایا جائے ؟ شاید کسی کو یہ خیال گزرے کہ جب یہ وعیدیں ہیں تو لوگوں کے درمیان جو جھگڑے ہوں ان کے فیصلے کون کرے گا ؟ جواب یہ ہے کہ شریعت کے اصول کے مطابق اگر کسی کو حاکم بنا دیا جائے اور پھر وہ شریعت کے مطابق فیصلے کرے حق و انصاف کو سامنے رکھے قرآن و حدیث کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور دوسروں کو بھی اس پر ڈالے تو ایسا قاضی انشاء اللہ کامیاب ہوگا۔ وہ اصول کون سا ہے جس کے موافق قاضی بنایا جائے ؟ وہ یہ ہے کہ جو شخص قاضی بننے کی تمنا نہ کرے نہ اس کا طلب گار ہو نہ اس کے لیے کوشش کریں نہ سفارشیں کروائے نہ رشوتیں دے اور عہدہ قضا سے بچتا رہے اس کو قاضی بنا دیا جائے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عہدہ قضا کا طلبگار ہو اور اس سلسلے میں سفارش کرنے والوں سے سوال کرے (جس پر اسے عہدہ دے دیا جائے) تو وہ اپنے نفس کے حوالے کردیا جائے گا (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد نہ ہوگی وہ جانے اس کا نفس جانے جب ایسا ہوگا تو ظاہر ہے کہ نفس کے موافق فیصلے ہوں گے) اور جس کو قاضی بننے پر مجبور کیا جائے اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیج دیتا ہے جو اسے ٹھیک راستے پر چلاتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص عہدہ قضا کا طلبگار ہو اسے تو عہدہ سپرد کیا ہی نہ جائے جس کے دل میں خواہش ہے کہ میں فیصلے کرنے والا بنوں وہ حق پر قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس کی رغبت اور خواہش بتارہی ہے کہ وہ اس سے دنیاوی منافع حاصل کرے گا اسے جاہ اور مال کی رغبت ہے اس لیے وہ اس عہدے کا طالب ہوا۔ اس کو عہدہ مل جائے گا تو فیصلے اپنی مرضی کے مطابق کرے گا اور جہالت کے ساتھ کرے گا، رشوتیں بھی لے گا اور اپنے پرائے کا خیال بھی کرے گا اور جس پر زبر دستی کر کے عہدہ قضا ڈال دیا گیا وہ اس کی ذمہ داریوں سے جیسا پہلے ڈرتا تھا ایسے ہی اب اپنے نفس کو ذمہ داریاں پوری کرنے کا پابند بنائے گا، یہ ایک ایسا سنہری اصول ہے کہ اسے اختیار کرلیا جائے تو فیصلوں میں جو ظلم ہوتے ہیں ان کی روک تھام ہوجائے گی۔ اب تو ہوتا یہ ہے کہ جن کو جج اور مجسٹریٹ بننا ہے وہ پڑھتے ہی اس لیے ہیں کہ ڈگری لے کر اس کام میں لگیں گے پھر درخواستیں دیتے ہیں۔ سفارشیں لاتے ہیں رشوتیں دیتے ہیں پھر جن لوگوں کے ہاتھ میں تقرر ہوتا ہے وہ بھی رشوتوں اور سفارشوں اور ڈگریوں کی بنیاد پر حج اور مجسٹریٹ بنا دیتے ہیں۔ اور اوپر جسٹس تک یہی سلسلہ چلتا ہے یہ جس کا تقرر کرتے ہیں اس کے بارے میں یہ تو دیکھا ہی نہیں جاتا کہ اسے قرآن و حدیث کا کچھ علم ہے یا نہیں اور اس میں تقویٰ کتنا ہے خدا ترسی کتنی ہے۔ اس سے انصاف کی امید کتنی ہے۔ حاکم تک کوئی شخص خود نہیں پہنچ سکتا وکیل کے بغیر حاکم کے ہاں کسی مظلوم کا کیس پیش نہیں ہوسکتا اول وہ وکیل کی فیس فراہم کرے پھر اس کا استغاثہ دائر ہو پھر تاریخوں پر تاریخیں پڑتی رہتی ہیں جس سے اس کے وقت اور پیسے کا خون ہوتا رہتا ہے یہ دشمنان اسلام کا طریق کار ہے مجسٹریٹ اس سے مانوس ہیں اور اسی پر چلتے ہیں اور اسی کی تنخواہ لیتے ہیں مظلوم کی داد رسی کا ذرا دھیان نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نصیحت قبول کرنے میں خیر ہے : آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس چیز کی تمہیں نصیحت فرماتا ہے وہ بہت اچھی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ نے جو حکم دیا ہے اس میں تمہارے لیے بہتری ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور ہدایت تمہارے لیے سراپا بہتر ہے اس میں دنیا و آخرت کی خیر ہے اس کو خوشی سے قبول کرو اور عمل کرو۔ اور جو شخص نصیحت نہ مانے گا خیر کو قبول نہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اس کی جزا دے دے گا وہ سمیع یعنی سننے والا ہے اور بصیر یعنی دیکھے والا ہے کسی کا کوئی عمل اس کے علم سے خارج نہیں درحقیقت یہ بہت بڑی تنبیہ ہے جو لوگ خلاف شرع فیصلے کرنے اور نا اہلوں اور ظالموں کو اور رشوت خوروں کو عہدہ قضا دینے کے خوگر ہوگئے ہیں وہ سب لوگ اس کا مراقبہ کریں اور غور کریں کہ آخر بار گاہ خداوندی میں پیش ہونا ہے۔
Top