Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 62
فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ١ۖۗ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا
فَكَيْفَ : پھر کیسی اِذَآ : جب اَصَابَتْھُمْ : انہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا : اس کے سبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ ثُمَّ : پھر جَآءُوْكَ :وہ آئیں آپ کے پاس يَحْلِفُوْنَ : قسم کھاتے ہوئے بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ : کہ اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّآ : سوائے (صرف) اِحْسَانًا : بھلائی وَّتَوْفِيْقًا : اور موافقت
پس کیا حال ہوگا جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے ان کے ہاتھوں کے کیے ہوئے کرتوتوں کی وجہ سے پھر وہ آئیں آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ بھلائی کی صورت نکل آئے اور آپس میں موافقت ہوجائے۔
منافق مذکور کے قبیلہ والوں کی غلط تاویلیں : صاحب روح المعانی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ جس شخص کو حضرت عمر ؓ نے قتل کردیا تھا اس کے ورثاء خون کا بدلہ طلب کرنے کے لیے حاضر ہوگئے اور جب ان کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ تمہارا آدمی رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر دو بارہ فیصلہ کرانے کے لیے اپنے ساتھی یعنی یہودی کو حضرت عمر ؓ کے پاس کیوں لے گیا اور حضور اقدس ﷺ کے فیصلے سے کیوں ناراض ہوا جو سراسر کفر ہے تو وہ اپنے آدمی کے اس عمل کی تاویلیں کرنے لگے۔ ان کی ان باتوں کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (فَکَیْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ ) (الایۃ) کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا کہ جب ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچ جائے تو آپ کے پاس (مدد طلب کرنے کے لیے) آئیں اور قسمیں کھا کھا کر کہیں کہ بشر والے معاملے میں ہم لوگوں کا مقصد اچھی صورت نکالنا اور باہمی رضا مندی کے ذریعہ موافقت پیدا کرنا تھا۔ دل سے ہم کسی غیر کے فیصلے پر راضی نہ تھے۔ جو کچھ تھا اوپر اوپر سے تھا اس میں ان لوگوں کے لیے وعید ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ عذر پیش کریں گے لیکن عذر کوئی فائدہ نہ دے گا۔ ان کا نفاق کھل کر سامنے آگیا لہٰذا کوئی معذرت قابل قبول نہ ہوگی۔
Top