Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 60
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہا رَبُّكُمُ : تمہارے رب نے ادْعُوْنِيْٓ : تم دعا کرو مجھ سے اَسْتَجِبْ : میں قبول کروں گا لَكُمْ ۭ : تمہاری اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں عَنْ عِبَادَتِيْ : میری عبادت سے سَيَدْخُلُوْنَ : عنقریب وہ داخل ہوں گے جَهَنَّمَ : جہنم دٰخِرِيْنَ : خوار ہوکر
اور تمہارے رب نے فرمایا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب بحالت ذلت جہنم میں داخل ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کرنے کا حکم اور قبول فرمانے کا وعدہ اس آیت کریمہ میں حکم فرمایا ہے کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا یہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کا بہت بڑا انعام اور احسان ہے کہ بندوں کو اپنی ذات عالی سے مانگنے کی اجازت دے دی اور پھر قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمالیا دعا مانگنے میں جو کیف ہے اسے وہی بندے جانتے ہیں جو دعا کے طریقہ پر دعا کرتے ہیں دعا سراپا عبادت ہے جیسا کہ آیت کے ختم پر فرمایا (اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ) بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں (یعنی دعا سے منہ موڑتے ہیں) وہ عنقریب ذلیل ہونے کی حالت میں جہنم میں داخل ہوں گے۔ دعاء کی ضرورت اور فضیلت حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ الدعاء مخ العبادۃ (مشکوٰۃ المصابیح ص 194) کہ دعاء عبادت کا مغز ہے چھلکے کے اندر جو اصل چیز ہوتی ہے اسے مغز کہتے ہیں اور اسی مغز کے دام ہوتے ہیں اگر بادام کو پھوڑو تو اس میں سے گری نکلتی ہے اسی گری کی اصل قیمت ہوتی ہے اگر چھلکوں کے اندر گری نہ ہو تو بادام بےدام ہوجاتے ہیں عبادتیں بہت سی ہیں اور دعا بھی ایک عبادت ہے لیکن یہ ایک بہت بڑی عبادت ہے عبادت ہی نہیں عبادت کا مغز ہے اور اصل عبادت ہے عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے حضور میں بندہ اپنی عاجزی اور ذلت پیش کرے اور خشوع و خضوع یعنی ظاہر اور باطن کے جھکاؤ کے ساتھ بارگاہ بےنیاز میں پوری نیاز مندی کے ساتھ حاضر ہو اور چونکہ یہ عاجزی والی حضوری دعا میں سب عبادتوں سے زیادہ پائی جاتی ہے اس لیے دعا کو عین عبادت اور عبادت کا مغز فرمایا دعا کرتے وقت بندہ اپنی عاجزی اور حاجت مندی کا اقرار کرتا ہے اور سراپا نیاز ہو کر بارگاہ خداوندی میں اپنی حاجت پیش کرکے للچاتا اور للکتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ صرف اللہ ہی دینے والا ہے وہ داتا ہے اس کے سوا کوئی دینے والا نہیں ہے وہ قادر ہے کریم ہے جتنا چاہے دے سکتا ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے وہ بےنیاز ہے اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے اور مخلوق سراسر عاجز اور محتاج ہے جب اپنے اس یقین کے ساتھ قادر وقیوم کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلا کر سوال کرتا ہے تو اس کا یہ شغل سراپا عبادت بن جاتا ہے اور یہ دعا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا مندی کا سبب بن جاتی ہے اس کے برعکس جو شخص دعا سے گریز کرتا ہے وہ اپنی حاجت مندی کے اقرار کو خلاف شان سمجھتا ہے چونکہ اس کے اس طرز عمل میں تکبر ہے اور اپنی بےنیازی کا دعویٰ ہے اس لیے اللہ جل شانہٗ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ چونکہ دعا عبادت ہی عبادت ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا لَیْسَ شَیٌ اَکْرَمُ عَلَی اللّٰہِ مِنَ الدُّعَاءِ (مشکوٰۃ المصایح ص 194 عن الترمذی) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز بزرگ و برتر نہیں ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے : مَنْ لَمْ یَسْءَلِ اللّٰہَ یَغْضَبُ عَلَیْہِ (مشکوٰۃ المصابیح 195) جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔ ) انسان اپنی بھلائی اور بہتری کے لیے جتنی تدبیریں کرتا ہے اور دکھ تکلیف نقصان اور ضرر سے بچنے کے لیے جتنے طریقے سوچتا ہے ان میں سب سے زیادہ کامیاب اور آسان اور موثر طریقہ دعا کرنا ہے نہ ہاتھ پاؤں کی محنت نہ مال کا خرچہ، بس دل کو حاضر کرکے دعا کرلی جائے، غریب امیر، بیمار اور صحت مند، مسافر اور مقیم بوڑھا اور جوان مرد ہو یا عورت مجمع ہو یا تنہائی ہر شخص دعا کرسکتا ہے حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لا تعجزوا فی الدعاء فانہ لن یھلک مع الدعاء احد (الترغیب والترہیب اللحافظ المنذری) (دعا کے بارے میں عاجز نہ بنو کیونکہ دعا کے ساتھ ہوتے ہوئے ہرگز کوئی شخص ہلاک نہ ہوگا۔ ) جو لوگ دعا سے غافل ہوتے ہیں گویا اپنے کو اللہ تعالیٰ کا محتاج نہیں سمجھتے اور ان سے بڑھ کر وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خناس گھسا ہوا ہے وہ دعا کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں آیت بالا میں فرمایا کہ جو لوگ میری عبادت سے یعنی مجھ سے دعا کرنے میں اپنی ذلت محسوس کرتے ہیں اور دعا نہ کرنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں، ایسے لوگ ذلت کی حالت میں جہنم میں داخل ہوں گے لوگوں کا یہ طریقہ رہ گیا ہے کہ دنیاوی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اگر دعا کرتے بھی ہیں تو بس ذرا نام کو ہاتھ اٹھا لیتے ہیں نہ دل حاضر نہ آداب دعا کا خیال، ہاتھ اٹھائے اور منہ پر پھیر لیے، یہ بھی پتہ نہیں کہ زبان سے کیا کلمات نکلے اور کیا دعا مانگی، فضائل دعا کے بارے میں ہم نے مستقل کتاب لکھ دی ہے اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔
Top