Anwar-ul-Bayan - At-Tur : 39
اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ وَ لَكُمُ الْبَنُوْنَؕ
اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ : یا اس کے لیے ہیں بیٹیاں وَلَكُمُ الْبَنُوْنَ : اور تمہارے لیے ہیں بیٹے
کیا اس کیلئے بیٹیاں اور تمہارے لیے بیٹے ہیں،
پھر فرمایا ﴿ اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ وَ لَكُمُ الْبَنُوْنَؕ0039﴾ (کیا س کے لیے بیٹیاں اور تمہارے لیے بیٹے ہیں) قریش مکہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے اور فرشتوں کو بنات اللہ کہتے تھے اور جب ان کے سامنے ان کے اپنے ہاں بیٹیاں پیدا ہونے کی بات آتی تھی تو اس کو برا مانتے تھے، اس آیت میں ان کی بیوقوفی بتادی کہ جس چیز کو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو اسے اللہ کے لیے تجویز کرتے ہو، جن لوگوں کی سمجھ کا یہ حال ہے کیا انہیں یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض کریں کہ ہماری سمجھ کے مطابق کسی کو نبی کیوں نہیں بنایا گیا، نیز یہ لوگ وقوع قیامت کا انکار کرتے ہیں یہ بھی ان کی بیوقوفی ہے۔ علامہ قرطبی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں : سفہ احلامھم توبیخالھم وتقریعا ای اتضیفون الی اللّٰہ البنات مع انفتکم منھن ومن کان عقلہ ھکذا خلا یستعدمنہ انکالی البعث۔
Top