Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 75
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِۚ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
سو اے انس و جن تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے،
فوائد ضروریہ متعلقہ سورة الرحمٰن ” فائدہ اولیٰ “ : سورة الرحمٰن میں اکتیس (31) جگہ ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ فرمایا ہے اس کے بار بار پڑھنے سے ایک کیف اور سرور محسوس ہوتا ہے ایمانی غذا بھی ملتی ہے اور تلاوت کرنیوالا اور تلاوت سننے والے پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کو عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن فرمایا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 189) ” فائدہ ثانیہ “:﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ میں جنات اور انسان دونوں جماعتوں کو خطاب فرمایا ہے اور بار بار یاددہانی کرائی ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں سے نوازا ہے سو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے آپ نے اپنے صحابہ کو سورة الرحمن اول سے آخر تک پڑھ کر سنائی یہ لوگ خاموشی سے سنتے رہے آپ نے فرمایا کہ میں نے اس سورت کو لیلتہ الجن میں جنات کو پڑھ کر سنایا وہ جواب دینے میں تم سے اچھے ثابت ہوئے۔ میں جب بھی ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ پڑھتا تھا تو وہ جواب میں یوں کہتے تھے : لابشیء من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد اے ہمارے رب ! ہم آپ کی کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے آپ ہی کے لیے سب تعریف ہے۔ (رواہ الترمذی) اللہ تعالیٰ شانہ نے سب کو ہر طرح چھوٹی بڑی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان نعمتوں کا اقرار کرنا اور شکر گزاری کا مظاہرہ کرنا یعنی وہ اعمال اختیار کرنا جن سے نعمتیں دینے والا راضی ہو یہ نعمتوں کی قدر دانی ہے، نعمتوں کا انکار کردینا کہ مجھے نہیں ملی یا اللہ تعالیٰ نے مجھے نہیں دی میں نے اپنی کوشش سے حاصل کی ہیں یا ایسا طرز عمل اختیار کرنا جس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ یہ شخص نعمتوں کا اقراری نہیں ہے یہ سب نعمتوں کی تکذیب ہے یعنی انکار جھٹلانا ہے۔ کفران نعمت بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ” فائدہ ثالثہ “: یہ جو اشکال ہوتا ہے کہ سورة الرحمن کے دوسرے رکوع میں بعض عذابوں کا بھی ذکر فرمایا ہے اور ان کے بعد بھی آیت بالا ذکر فرمائی ہے عذاب تو نقمت ہے وہ نعمتوں میں کیسے شمار ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ پہلے تنبیہ کردی گئی ہے کہ گنہگاروں کے ساتھ ایسا ایسا ہوگا تاکہ کفر و شرک اور معصیتوں سے بچیں اس لیے پیشگی خبر دے دینا کہ ایسا کرو گے تو ایسا بھرو گے یہ بھی ایک نعمت ہے اور حقیقت میں یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ” فائدہ رابعہ “: آیات کریمہ سے یہ تو واضح ہوگیا کہ جنات بھی مکلف ہیں اور مخاطب ہیں سورة الذاریات میں واضح طور پر فرمایا ہے ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ﴾ اور میں نے جن اور انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا) اور جس طرح انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جنات پر بھی ہیں گو انسانوں کو فوقیت اور فضیلت حاصل ہے کیونکہ انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ دونوں فریق کے پاس اللہ تعالیٰ کی ہدایت آئیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول آئے دونوں جماعتیں اللہ کے حکم کی مکلف ہیں گویہ مسئلہ اختلافی ہے کہ جنات میں بھی رسول آئے تھے یا نہیں، بنی آدمی کی طرف جو رسول بھیجے گئے تھے وہی جنات کی طرف مبعوث تھے یا ان میں سے بھی رسول مبعوث ہوتے تھے۔ البتہ اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ خاتم النّبیین محمد رسول اللہ ﷺ رسول الثقلین ہیں یعنی رہتی دنیا تک کے لیے آپ ہی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جس طرح آپ انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے اسی طرح آپ جنات کی طرف بھی مبعوث کیے گئے۔ سورة الرحمٰن کی آیات سے ایسا ہی مفہوم ہوتا ہے اور سورة الاحقاف میں ہے کہ جنات آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واپس ہو کر انہوں نے اپنی قوم سے جاکر کہا ﴿يٰقَوْمَنَاۤ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ وَ اٰمِنُوْا بِهٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ يُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ 0031﴾ (اے ہماری قوم اللہ کے داعی کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا) ۔ رسول اللہ ﷺ کئی بار جنات کے رہنے کی جگہ تشریف لے گئے جس کا کتب حدیث میں تذکرہ ملتا ہے۔ فائدہ خامسہ : یہ تو معلوم ہوگیا کہ جنات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکلف ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی عبادت کا حکم دیا ان کی طرف رسول بھی بھیجے ان میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی، کافروں کے لیے جہنم ہے خواہ انسان ہوں خواہ جنات ہوں جیسا کہ سورة الم سجدہ میں فرمایا ہے ﴿وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَ لٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ 0013﴾ (اور اگر ہم کو منظور ہوتا تو ہم ہر شخص کو اس کی ہدایت عطا فرماتے اور لیکن میری یہ بات محقق ہوچکی ہے کہ میں جہنم کو جنات اور انسان دونوں سے ضرور بھروں گا) ۔ حضرات محدثین اور مفسرین کرام نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مومن جنات پر اتنی مہربانی ہوگی کہ صرف دوزخ سے بچالئے جائیں گے یا انہیں جنت میں بھی داخل کیا جائے گا، سورة الرحمن کی آیات جن میں اہل جنت کی نعمتیں بتائی ہیں ان میں بار بار جو ﴿فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ فرمایا ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ جنات بھی جنت میں جائیں گے۔ آکام المرجان (تالیف شیخ بدر الدین شبلی حنفی ؓ نے چوبیسویں باب میں اس سوال کو اٹھایا ہے اور چار قول لکھے ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ مومن جنات جنت میں داخل ہوں گے اور اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ وقال وعلیہ جمھور العلماء وحکاہ ابن حزم فی الملل عن ابن ابی لیلی وابی یوسف و جمھور الناس قال وبہ نقول۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جنات جنت میں داخل نہ ہوں گے اس کے باہر ہی دروازوں کے قریب رہیں گے انسان انہیں دیکھ لیا کریں گے وہ انسانوں کو نہ دیکھیں گے۔ (علی عکس ذلک فی الدنیا) ۔ اس قول کے بارے میں لکھا ہے : وھذا القول ماثور عن مالک والشافعی واحمد وابی یوسف و محمد حکاہ ابن تیمیہ فی جواب ابن مری وھو خلاف ما حکاہ ابن حزم عن ابی یوسف۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ اعراف میں رہیں گے اور اس بارے میں انہوں نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے۔ چوتھا قول توقف کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ” فائدہ سادسہ “: سورة الرحمن کے پہلے رکوع کے ختم پر اور تیسرے رکوع کے ختم پر اللہ تعالیٰ کی صفت ﴿ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ﴾ بیان فرمائی ہے اللہ تعالیٰ شانہ عظمت والا ہے اور اکرام والا ہے یعنی اپنے بندوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتا ہے اور انعام سے نوازتا ہے (اس کی تشریح گزر چکی ہے) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے الظّوابِیَا ذالجلال والاکرام یعنی یاذالجلال والا کرام میں لگے رہو اس کو پڑھتے رہو اس کے ذریعے دعا کرتے رہو۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسناد صفحہ 499: ج 1، واقرہ الذھبی) حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تھے تو تین بار استغفار کرتے تھے اور یہ دعا کرتے تھے : اللھم انت السلام ومنک السلام تبارک یا ذا الجلال والاکرام (رواہ مسلم) ترجمہ : اے اللہ ! تو باسلامت ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی ملتی ہے اے جلال اور اکرام والے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا یاذا الجلال والا کرام (اے عظمت والے اور بخشش کرنے والے) آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ تیری دعا قبول کرلی گئی لہٰذا تو سوال کرلے۔ (رواہ الترمذی) حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا کہ میں حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اس شخص نے بعد نماز یہ الفاظ ادا کیے : اللھم انی اسلک بان لک الحمد لا الا الہ الا انت المنان بدیع السموت والارض یا ذا الجلال والا کرام یا حیی یا قیوم۔ اے اللہ ! بیشک میں آپ سے اس بات کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ بلاشبہ آپ کے لیے سب تعریف ہے کوئی معبود آپ کے سوا نہیں ہے۔ آپ بہت زیادہ دینے والے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کو بلامثال پیدا فرمانے والے ہیں اے عظمت والے اے عطا فرمانے والے، اے زندہ، اے قائم رکھنے والے ! یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ اس شخص نے اللہ کے اس بڑے نام کے ذریعہ دعا کی ہے کہ جب اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا جاتا ہے تو عطا فرما دیتا ہے۔ (رواہ ابوداؤد صفحہ 210)
Top