Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 27
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور آپ اگر اس وقت دیکھیں جب وہ کھڑے کیے جائیں گے دوزخ پر تو کہیں گے ہائے ! ہماری بربادی کاش ہم واپس کر دئیے جاتے اور اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلاتے اور ایمان والوں میں سے ہوجاتے !
کافروں کا دنیا میں دو بارہ آنے کی آرزو کرنا ان آیات میں اللہ جل شانہٗ نے کافروں کا حال بیان فرمایا ہے اور روز محشر کا ایک منظر بتایا ہے فرمایا کہ اگر آپ ان لوگوں کا وہ حال دیکھیں جب وہ دوزخ پر کھڑے کیے جائیں گے تاکہ اس میں داخل کیے جائیں اور اپنی آنکھوں سے وہاں کا عذاب دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ کاش ! ہم دینا میں واپس کردیئے جاتے اور اب وہاں جا کر اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے۔ آپ یہ دیکھیں گے تو عجب منظر ہوگا۔ اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے کہ یہ بات نہیں ہے کہ ایمان کی رغبت اور محبت کی وجہ سے دنیا میں واپس جانے کی آرزو کر رہے ہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جو کچھ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ یعنی کفر اس کا نتیجہ سامنے آگیا۔ دنیا میں جانے کی آرزو اس لیے کر رہے ہیں کہ عذاب نار سے خلاصی ہوجائے۔
Top