بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
ن ۤ، قسم ہے قلم کی اور فرشتوں کے لکھنے کی،
رسول اللہ ﷺ سے خطاب کہ آپ کے لیے بڑا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا اور آپ صاحب خلق عظیم ہیں یہاں سے سورة ٴ القلم شروع ہو رہی ہے (ن ٓ) حروف مقطعات میں سے ہے جو متشابہات میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے قلم کی اور فرشتے جو کچھ لکھتے ہیں اس کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے محمد ﷺ آپ اپنے رب کے انعام کی وجہ سے مجنون نہیں ہیں، مشرکین جو بطور عناد رسول اللہ ﷺ کو العیاذ باللہ دیوانہ بتاتے تھے اس میں ان کی تردید فرمائی۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ قلم سے وہ قلم مراد ہے جس نے لوح محفوظ میں کائنات کے بارے میں اللہ کے حکم سے وہ سب کچھ لکھ دیا تھا جو آئندہ وجود میں آنے والا تھا اور ﴿وَ مَا يَسْطُرُوْنَۙ001﴾ سے ان فرشتوں کا اعمال لکھنا مراد ہے جو بندوں کے اعمال لکھتے ہیں (علی ان ما مصدریة) حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا پھر فرمایا کہ لکھ قلم نے کہا کیا لکھوں ؟ فرمایا وہ سب چیزیں لکھ دے جو مقدر ہوچکی ہیں۔ لہٰذا قلم نے وہ سب کچھ لکھ دیا جو ہمیشہ آئندہ تک ہونے والا ہے۔ (رواہ الترمذی وقال حدیث اسنادہ غریب کما فی المشکوٰۃ صفحہ 21) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ آیت کریمہ میں القلم سے مطلق قلم مراد ہے جو قلم تقدیر کو اور فرشتوں اور انسانوں کے قلموں کو شامل ہے اللہ تعالیٰ نے قلم اور جو کچھ قلم سے لکھا جاتا ہے اس کی قسم کھا کر فرمایا ہے ﴿ مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ002 ﴾ (آپ اپنے رب کی نعمت کی وجہ سے مجنون نہیں ہیں) یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو نعمت دی ہے۔ اپنے فضل سے نوازا ہے اور یہ نعمت نبوت ہے اس نعمت کی وجہ سے آپ انہیں توحید کی دعوت دیتے ہیں اس دعوت کو سن کر یہ لوگ آپ کو مجنون کہتے ہیں حالانکہ جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت مکمل ہو وہ مجنون نہیں ہوسکتا۔ قال صاحب الروح والمعنی انتفی عنک الجنون فی حال کو نک متلبسا بنعمة ربك۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ شانہ نے جس چیز کی قسم کھائی ہے وہ مذکورہ مضمون (مقسم بہ) کے بارے میں ایک قسم کی شہادت ہوتی ہے۔ یہاں جو ﴿ وَ الْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُوْنَۙ001 ﴾ فرمایا اس میں یہ بتادیا کہ لوگو ! دنیا کی تاریخ دیکھ لو کیا کیا لکھا ہے اور کیا کیا حالات اور وقائع سنتے آ رہے ہو کیا ایسے اعلیٰ اعمال اور اکمل اخلاق والے بھی دیوانے ہوا کرتے ہیں خود ان لوگوں کی عقلیں کہاں ہیں جو ایسے عاقل کامل اور صاحب خلق عظیم کو مجنون بتا رہے ہیں۔ ﴿ وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَيْرَ مَمْنُوْنٍۚ003 ﴾ ( اور بلاشبہ آپ کے لیے ایسا اجر ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے) ۔ یعنی یہ لوگ آپ کو دیوانہ کہہ رہے ہیں اور آپ انہیں توحید کی دعوت دے رہے ہیں انجام کار دعوت کی مشغولیت پر اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بڑا اجر وثواب ملے گا جو کبھی بھی ختم نہ ہوگا۔
Top