Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ
: ن
وَالْقَلَمِ
: قسم ہے قلم کی
وَمَا يَسْطُرُوْنَ
: اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
نون۔ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو اس سے لکھتے ہیں۔
ترکیب : ن۔ قریٔ بادغام النون الثانیہ من ہجائھانی الواوقریٔ بالاظہار وبالفتح وبالکسر وبالضم اما الفتح فباضمار فعل والفتح علی اضمارا لقسم اولالتقاء الساکنین والضم علی النبائ۔ والقلم الواوللقسم وماموصولۃ یسطرون صلۃ والعائد محذوف والجملۃ معطوفۃ علی القلم ما انت الجملۃ جواب القسم وان لک الجملۃ معطوفۃ علی الجملۃ السابقۃ و انک ایضا معطوفۃ علیھا والجملات الثلاث جواب القسم۔ بایکم المفتون الباء زائدۃ ویمکن ان یکون المفتون مصدر امثل المعقول والمیسور ای بایکم الجنون۔ تفسیر : جمہور کے نزدیک یہ سورة بھی مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ حسن و عکرمہ وعطاء کا بھی یہی قول ہے۔ ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ سب سے اول اقرء نازل ہوئی۔ پھر سورة نون، پھر مزمل، پھر مدثر اور عائشہ صدیقہ ؓ بھی یہی فرماتی ہیں کہ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ کچھ مکہ اور کچھ مدینے میں نازل ہوئی۔ اس سورة کو سورة قلم بھی کہتے ہیں اور سورة ن بھی۔ کس لیے کہ نون بھی اس کے اول میں ہے اور قلم بھی ہے۔ اس سورة میں بھی بلحاظ تقدم نزول کے مسئلہ نبوت پر دلچسپ بحث ہے اور آنحضرت ﷺ کی ذات بابرکات میں جو مخالفین نبوت اپنے خیالات فاسدہ سے عیب ثابت کرتے تھے کہ آپ دیوانے ہیں اور ناحق دنیا سے لڑتے جھگڑتے ہیں، بدخلق ہیں، ان کی بدلائل تو یہ نفی کی ہے۔ اور یہ کچھ نئی بات نہ تھی نہ مستبعد کس لیے کہ ملک عرب اور اس کا مکہ شہر گمراہی اور ہلاکت کی اندھیریوں میں پڑا ہوا تھا ایسے وقت خدائے پاک کی توحید و عظمت بیان کرنا اور مکارم اخلاق کی تعلیم دینا اور ان بری باتوں کی ممانعت کرنا جو ان کی طبیعت میں خمیر ہوگئی تھیں اور صدیوں سے باپ دادا کو انہیں پر چلتے دیکھتے آئے تھے ایک نہایت حیرت خیز بات تھی جس کے قائل کو دیوانہ کہنا کچھ بڑی بات نہ تھی اور جابجا پردرد الفاظ میں منادی کرنا اور دردمندی سے ان ڈوبتوں کو بچانے کی کوشش کرنا ان کی طبیعت کے برخلاف کام تھا جس کو بدخلقی اور تعصب کہتے تھے اور آپ کے مساعی جمیلہ کا نتیجہ آپ کے حق میں مہلک خیال کرتے تھے اور آپ کو اس طریقہ سے پھیر کر اپنی طرف لانا آپ کے حق میں بہتر خیال کرتے تھے۔ ان سب باتوں کا رد ان آیات میں بڑی تسلی بخش الفاظ میں کیا گیا ہے۔ عرب میں دستور تھا کہ جھوٹی بات پر کم قسم کھاتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ جو کوئی جھوٹ پر قسم کھائے گا برباد ہوجائے گا اس لیے خدائے پاک اپنے کلام کو جو آنحضرت ﷺ کی زبان سے ادا کرتا ہے قسم سے شروع کرتا ہے۔ فقال ن والقلم ومایسطرون کہ قسم ہے نون اور قلم سے لکھی ہوئی چیزوں کی ماانت الخ کہ تو اے محمد ﷺ ! فضلِ الٰہی سے دیوانہ نہیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔ نون سے کیا مراد ہے ؟ : نون سے کیا مراد ہے ؟ اس کی پوری بحث سورة بقرہ کی تفسیر الم میں ہم کر آئے ہیں مگر یہاں اس قدر جان لینا کافی ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ نون کسی کلمہ کا حرف ابتدائی یا اخیر حرف ہے جس سے آنحضرت ﷺ کو اطمینان دلایا جاتا ہے۔ ابتدائی حرف کی صورت میں بعض کہتے ہیں یہ ناصر یا ننصریانحن ننصر کا ابتدائی حرف ہے کہ اے محمد ﷺ ! کفار کے غلبہ و شوکت اور اپنے متبعین کے ضعف و قلت کا خیال نہ کر ہم اس دین کی مدد کریں گے اور غلبہ دیں گے۔ چناچہ غلبہ دیا اور وعدہ سچا کر دکھایا۔ بعض کہتے ہیں نور 1 ؎ کا ابتدائی حرف ہے کہ اے محمد ﷺ ! دنیا ظلمات سے بھر گئی ہے، اللہ نے اپنا نور ظاہر کیا جو تجھے بھیجا اور جہان کو روشن کرنے کے لیے مکہ کے پہاڑوں سے آفتاب ہدایت کو جلوہ گر کیا جس کی کرنیں تھوڑے سے دنوں میں زمین کے کناروں تک پھیل گئیں اور وہ کسی کے روکے سے نہ رکیں۔ واللہ متم نورہ۔ اور اخیر حرف کی صورت میں بعض کہتے ہیں الرحمن کی طرف اشارہ ہے کہ ہم رحمان ہیں، اپنی رحمت کاملہ سے دنیا میں نبی اور کتابیں بھیجی ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس سورة کی آیات میں اخیر حرف نون ہے جیسا کہ بلغاء فصحاء اول ہی کہہ دیتے ہیں کہ لام یعنی لام کی ردیف ہوگی۔ ان سب صورتوں میں نون حروف میں سے ایک حرف تہجی مراد ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ نون سے مراد مچھلی ہے۔ پھر بعض کہتے ہیں وہ مچھلی کہ جس نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو لقمہ کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ مچھلی جس کی پشت پر زمین ہے جس کا نام لہموتؔ یابلہوتؔ ہے۔ پھر اس کی تفصیل میں ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ جب خدا نے آسمان اور زمین بنائے تو عرش سے فرشتہ بھیجا جس نے زمین کو اپنے مونڈھوں پر اٹھا لیا مگر فرشتہ کے پائوں ٹکنے کی جگہ نہ تھی خدا نے ایک بیل بھیجا جس کے چالیس ہزار سینگ تھے اور چالیس ہزار پائوں تھے۔ بیل کے کوہان پر زمرد کی چوکی رکھی اس پر فرشتہ نے پائوں رکھے مگر پھر بیل کے پائوں رکھنے کی جگہ نہ تھی اس لیے ایک بڑا پتھر پیدا کیا جس پر وہ بیل کھڑا ہوا اور بیل کے سینگ زمین میں سے باہر نکل آئے ہیں اور اس کے نتھنے سمندر میں ہیں۔ جب وہ سانس لیتا ہے تو سمندر کا پانی زیادہ ہوجاتا ہے اور کف بھی پیدا ہوتے ہیں اور جب دم کھینچتا ہے تو پانی سمٹ جاتا ہے یعنی مدوجزر اس کے سانس سے پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ پتھر جس پر بیل کھڑا ہے ایک مچھلی پر ہے جس کا یہاں ذکر ہے اور مچھلی پانی پر ہے اور پانی ہوا پر ہے جس سے اشارہ ہے کہ جہان کی بنیاد ہوا پر ہے۔ پھر اس مچھلی اور بیل کی بابت عجائب وغرائب روایات مذکور ہیں۔ یہ روایت ابن المنذر و عبد بن حمید و ابن مردویہ نے کی ہیں اور مجاہد و سدی و مقاتل و مرہ ہمدانی و عطا خراسانی کلبی وغیرہ سے بھی منقول ہیں۔ یہ روایات محققین محدثین کے نزدیک بےاصل ہیں اس لیے انہوں نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں لکھنا برا سمجھا۔ فن موضوعات 2 ؎ میں آئمہ جرح و تعدیل نے اس بات کا فیصلہ کردیا ہے۔ ا ؎ تب اس میں اس پیشین گوئی کی طرف اشارہ ہوگا جو عنقریب یسعیاہ (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کی بابت کر گئے تھے جس کا کتاب یسعیاہ کے ساٹھویں باب میں ذکر ہے۔ بقولہ ” اٹھ روشن ہو کر تیری روشنی آئی اور خداوند کے جلال نے تجھ پر طلوع کیا “۔ 12 منہ 2 ؎ یہ ایک حدیث کا فن ہے جس میں محدثین نے تحقیق و تدقیق سے جھوٹی اور لوگوں کی بنائی ہوی حدیثوں کو جداگانہ لکھ دیا ہے جیسا کہ ابن حنان و عقیل و ازوری کی تصنیف اور دارقطنی کے افراد اور خطیب کی تاریخ اور حاکم کی اور کامل بن عدی کی اور میزان ذہبی کی۔ ان بزرگوں نے ضعاف و موضعات کو چھانٹ لیا ہے اور بعض علماء نے خاص موضوعات کے لیے تصانیف کی ہیں جیسا کہ موضوعات ابن الجوزی و صفانی و جو زقانی و قزوینی۔ پھر مجدالدین فیروزآ بادی صاحب قاموس کا مختصر اور سخاوی کا مقاصد اور تمییز الطیب من الخبیب ربیع کی اور سیوطی نے ایک رسالہ بنام ذیل لکھا۔ ابن جوزی کے موضوعات پر اور دوسرا لآلی المضوعہ فی الاحادیث الموضوعۃ۔ اور عراقی نے احیاء العلوم پر تخریج لکھی اور طاہر ہندی نے تذکرہ لکھا اور ملاعلی قاری نے بھی ایک رسالہ لکھا ہے۔ پھر ان کے بعد شوکانی نے القوئد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعۃ ایک جامع کتاب لکھی۔ 12 منہ صوفیہ کرام کا مذہب : بعض صوفیہ کرام فرماتے ہیں کہ نون سے مراد نفس کلیہ اور قلم سے عقل کلی ہے۔ اول میں کنایہ ہے کلمہ کے اول حرف کے ساتھ اور دوم باب تشبیہ سے ہے کہ نفس میں صور موجودات تاثیر عقل سے منقش ہوجاتے ہیں جیسا کہ صورلوح پر قلم کی تاثیر سے منقش ہوتی ہیں۔ ومایسطرون سے مراد صور اشیاء اور ان کی ماہیات اور ان کے احوال جو صادر ہونے والے ہیں اور لکھنے والے عقول متوسط ارواح مقدسہ میں گرچہ کاتب ازلی حقیقت میں وہی ہے لیکن ان کی طرف مجازاً اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ وہ ذریعہ ہیں۔ (ازتفسیر علامہ محی الدین بن عربی) ۔ بعض کہتے ہیں نون سے ذات باری اور قلم سے صفات مراد ہیں۔ ومایسطرون سے وہ افعال و حالات جو الواح تقدیر پر لکھے جاتے ہیں۔ (عرائس) صاف مطلب یہ ہے کہ ن ایک حرف ہے جو شروع کلام میں کسی خاص رمز کے لیے آیا ہے جس کو وہی خوب جانتا ہے جیسا کہ اور حروف سورتوں کے اوائل میں آئے ہیں۔ والقلم ومایسطرون سے قسم شروع ہوتی ہے کہ ہمیں قلم کی قسم اور اس کی جو لکھتے ہیں۔ قلم سے کیا مراد ہے ؟ اب قلم سے خواہ وہ نورانی قلم مراد لو یعنی اندازہ الہٰیہ کہ جس نے ازل میں ہر شے کو الواح علمیہ پر ثابت کردیا جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے۔ جف القلم بماانت لاق رواہ البخاری۔ قلم کے خشک ہونے سے کنایہ ہے قلم الٰہی سے مقادیر لکھے جانے اور ان سے فارغ ہوجانے سے۔ ترمذی (رح) نے روایت کی ہے کہ اول خدا نے قلم کو پیدا کیا پھر اس سے کہا لکھ اس نے کہا کیا لکھوں، فرمایا تقدیر لکھ پھر جو ہوا اور اب تک ہوگا سب کچھ لکھا گیا۔ قلم اور لوح وہی تقدیر علمی اور مرتبہ و ثبوت فی علم اللہ ہے جو ازل میں تھا جس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ اس نوشتہ ازلی کا ثبوت انجیل متی کے 26، باب 54 جملے سے بھی ہے۔ قولہ ” کیا تو نہیں جانتا کہ میں ابھی اپنے باپ سے مانگ سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ ثمن سے زیادہ میرے لیے حاضر کر دے گا “ 54۔ پر نوشتوں کی بات کہ یوں ہی ہونا ضرور ہے تب کیونکر پوری ہوگی۔ خواہ اس سے مراد وہ قلم اور وہ لکھنا ہو کہ جو ملائکہ انسان کے نیک و بدکام لکھتے ہیں جس میں منکرین نبوت کے لیے سرزنش ہے۔ خواہ دنیاوی لوگوں کے قلم اور ان کی تحریرات مراد ہوں۔ پھر عام ہے کہ ہر معاملہ و انتظام دنیا کی بابت ہوں کس لیے کہ یہ بھی انعامِ الٰہی ہے جس پر دنیا کے صدہا انتظام مربوط ہیں۔ خواہ علمائِ ربانیین کے قلم اور ان کی تحریر مقدس اور الہامی کتابوں کی بابت ہو جس کو قریش بھی عمدہ اور متبرک سمجھتے تھے یا عام علمی قلمیں اور ان کی تحریریں ہوں جس سے اشارہ ہے کہ اسی دنیا میں پہلے بھی انبیاء (علیہم السلام) بھیجے ہیں اور ان کے منہ کی الہامی باتیں لوگوں نے تحریر کی ہیں اور پھر ان کو بھی اس عہد کے جاہلوں نے دیوانہ بنایا ہے جس پر وہ عتاب الٰہی میں گرفتار ہوئے ہیں اور ان باتوں کو اہل قلم مؤرخین نے لکھا ہے ان سے پوچھو۔ دیکھو بہرحال ایک عمدہ اور اعلیٰ چیز کی قسم ہے کفار کے ابطال کے لیے کہ وہ نبوت محمد ﷺ کا انکار کرتے اور آپ کو دیوانہ کہتے تھے۔ اس بات کا رد کرنے میں نون اور قلم اور تحریر کی قسم سے ایک عمدہ مناسبت ہے۔ کس لیے کہ نبوت علوم کا سرچشمہ ہے جو ایک اعلیٰ ترین نور ہے جس کی فیوضات بعد میں یا اس کے روبرو مبارک ہاتھ لکھا کرتے ہیں اور مقدس صحائف میں درج ہیں اور وہ دنیا کی اصلاح و فلاح کا عمدہ ذریعہ ہوتے ہیں مگر جاہل دماغ جب ان باتوں کو قبول نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو دیوانہ کہہ دیا کرتے ہیں اسی طرح ہر معنی سے قسم اور مقسم بہ میں مناسبت ہے۔ اور پھر ان چیزوں کی قسم پہلی سورة تبارک سے کمال مناسبت رکھتی ہے کس لیے کہ اس سورة میں خدا تعالیٰ نے اپنی بادشاہی کا اظہار کیا تھا اور اس کے متعلق آسمانوں و زمین کا بلند اور وسیع مکان بنانا اور مطیع اور سرکشوں کے لیے دارالانعام اور جہنم کا قیدخانہ وغیرہ امور ذکر فرمائے تھے مگر دفتر شاہانہ کا ذکر نہ آیا تھا اس لیے یہاں نون اور قلم اور تحریر سے وہ بات بھی ثابت کردی۔ قلم کے فضائل یعنی علم کی خوبیاں اور قلم سے نبوت کی مناسبت کہ قلم جس طرح لکھنے والے کے ہاتھ میں مجبور ہے اسی طرح حضرات انبیاء علیھم السلام تابع الہام ہیں، آپ سے کچھ نہیں فرماتے وماینطق عن الہوٰی پر علماء نے بہت کچھ بیان کئے ہیں۔ کس لیے مجنون کہتے تھے ؟ : تین چیزوں کی قسم کھائی، ن، قلم، تحریر کی اور قسم کھا کر تین باتیں بیان فرمائیں۔ (1) ماانت بنعمۃ ربک بمجنون کہ تو اے نبی ! اپنے رب کی نعمت یعنی عنایت سے دیوانہ نہیں اور جملہ کو اسمیہ اور ما سے مؤکد کیا جو عین مقتضائے بلاغت تھا کس لیے کہ وہ آپ کو مجنوں بھی بڑے زور سے کہتے تھے اور وجہ مجنون کہنے کی وہی تعلیم توحید و مکارم اخلاق تھی مگر نیا ایک سبب اور بھی پیدا ہوگیا تھا وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کے اظہار نبوت کے بعد کہ جس سے تمام مکہ میں کھلبلی پڑگئی تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت علی ؓ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور ام ایمن ؓ آپ کی لونڈی اور زید ؓ آپ کے متبنّٰی ایمان لائے تو آپ نے ان کو وضو اور نماز کے طریقے سکھائے جس سے اور بھی اہل مکہ کو نئی بات دیکھ کر حیرت ہوئی اور آپ کو دیوانہ کہنا شروع کردیا اور لطف یہ کہ آنحضرت ﷺ کی بےحد دانائی کے نبوت سے پہلے نہ صرف قریش مکہ بلکہ اور اطراف و جوانب کے لوگ بھی قائل تھے اور آپ کی زیر کی ضرب المثل تھی۔ (2) وانک لک لاجرا غیرممنون کہ آپ کے لیے بےانتہا اجر ہے۔ یہ گویا دلیل ہے پہلے جملے کی۔ کس لیے کہ دیوانے کی کوئی بات قابل مدح اور سبب اجر نہیں ہوتی کیونکہ اس کا کوئی کام عقل و ہوش سے نہیں ہوتا برخلاف اس کے آپ کو اجر ہے ان تمام مساعی جمیلہ کا اور اجر بھی کیسا ؟ بےانتہا کس لیے کہ دنیا میں توحید و خدا پرستی اور مکارم اخلاق کے (ان کے ہٹ جانے کے بعد) آپ ہی مروج اور معلوم ہیں جب تک دنیا میں یہ باتیں جاری رہیں گی آپ کو بھی برابر اجر ملتا رہے گا اور ہر ایک نیک کام کے بانی اور مروج کو بعد میں اجر ملا کرتا ہے۔ یہ اس کے باقیات الصاحات میں شمار ہوتا ہے اور ہمیشہ کے لیے دنیا میں گویا ایسے آدمی زندہ رہ کر نیک کام میں حصہ لینے والے شمار ہوتے ہیں اور زندہ تصور کئے جاتے ہیں۔ فائدہ : ممنون مقطوع کہتے ہیں مننت الحیل اذاقطعتہ غیرممنون غیرمقطوع کہ وہ کبھی منقطع نہ ہوگا اور یہی معنی ہیں۔ (3) و انک لعلٰی خلق عظیم اور بیشک تو بڑے خلق پر ہے۔ یہ بھی اسی جملے کی ایک دلیل قوی ہے۔ کس لیے کہ مجنون کے اخلاق اچھے نہیں ہوتے۔ برخلاف اس کے کہ آپ کے اخلاق حمیدہ اور افعال پسندیدہ کے وہ بھی بالاتفاق قائل تھے پھر دیوانہ کہنا دیوانہ پن ہے۔ خُلق کیا ہے : خلق ایک نفسانی ملکہ ہے جس کے سبب انسان عمدہ کام بآسانی کرسکتا ہے، اچھے کام کرنا اور بات ہے اور ان کو آسانی سے کرنا اور بات ہے۔ پس وہ حالت جس کی وجہ سے بسہولت نیک کاموں کو کرسکے اس کو خلق کہتے ہیں جس کی جمع اخلاق آتی ہے۔ خلق خلق بالضم وبالضمتین خوئے (صراح) خلق بخل اور لالچ اور غضب اور معاملات میں تشدد سے بچنا اور لوگوں سے معاملات میں نرمی، درگزر، مروت، سیرچشمی سے پیش آنا، انتقام سے درگزر کرنا، اقارب و احباب کے ساتھ سلوک کرنا بلکہ بدی کے مقابلے میں نیکی کرنا، کینہ اور حسد سے دور رہنا بھی خلق میں داخل ہے۔ حیا و شرم کرنا، سخت کلامی اور فحش گوئی اور طعنہ بازی سے بچنا اس کا ایک جز ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکات میں یہ سب باتیں فطری طور پر خمیر کردی گئی تھیں۔ ان باتوں کو بتکلف عمل میں لانے کی حاجت نہ تھی بلکہ بےتکلف خودبخود آپ سے سرزد ہوتی تھیں۔ خلق محمدی دنیا میں مشہور ہے۔ حضرت ﷺ کی روح پاک میں معارفِ الٰہیہ حقہ کے قبول کرنے کی نہایت استعداد رکھی تھی اور بری باتوں ‘ غلط عقائد کے قبول کرنے کی مطلقاً استعداد نہ تھی اس لیے یہ ملکہ آپ میں تھا جس کو خلق سے تعبیر کیا۔ ابی الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ سے خلق رسول اللہ ﷺ دریافت کیا، فرمایا آپ کا خلق قرآن تھا جس سے وہ راضی اس سے آپ راضی ‘ جس سے وہ ناخوش اس سے آپ ناخوش تھے۔ (اخرجہ البیہقی فی الدلائل و ابن مردویہ وابن المنذر) اس قسم کی ایک روایت سعد بن ہشام ؓ سے مسلم و ابن المنذر و حاکم وغیرہم نے نقل کی ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت ﷺ کا نفس مقدس بالطبع عالم قدس کی طرف مائل اور اس کے ساتھ جس قدر چیزیں متعلق ہیں ان کی طرف راغب تھا اور لذات بدنیہ اور سعادت دنیویہ سے بالطبع آپ کو سخت نفرت تھی۔ وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشائ۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں آپ سے زیادہ کوئی خوش خلق نہ تھا، جب کسی نے بلایا تو آپ نے یہ فرمایا، لبیک یعنی حاضر۔ نہ عمر بھر کسی کو مارا نہ گالی دی، نہ سخت کلامی سے پیش آئے۔ انس ؓ کہتے ہیں کہ دس برس تک میں حضرت ﷺ کی خدمت میں رہا، آپ نے کبھی مجھے کسی کام کے کرنے پر یہ نہ فرمایا کہ کیوں کیا اور نہ کرنے پر یہ نہ فرمایا کہ کیوں نہ کیا ؟ کتب شمائل اور سیر میں اس سے زیادہ آپ کے مکارم اخلاق مذکور ہیں۔ آج کل پھکڑبازی اور فحش گوئی اور بےجا دل لگی اور ہنسی کا نام خلق رکھا ہے۔ افسوس ! فائدہ : علی کا لفظ استعلاء کے لیے عرب میں مستعمل ہوتا ہے۔ علی خلق کہنے میں یہ اشارہ ہے کہ آپ ان اخلاق حمیدہ پر حاوی اور غالب ہیں اور عظیم کے لفظ نے اور بھی معنی میں وسعت پیدا کردی کس لیے کہ آنحضرت ﷺ کو اگلے انبیاء (علیہم السلام) کے اقتداء و اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ بقولہ اولئک الذین ھدھم اللہ فبہدائہم اقتدہ۔ اور یہ ظاہر کہ معرفتِ الٰہی اور احکام شرائع میں یہ اقتداء نہیں تو لامحالہ ان کے اخلاق میں اقتداء کرنا ہے تو جوہر ایک نبی (علیہ السلام) کے اخلاق تھے ان سب کا مجموعہ حضرت ﷺ میں قائم ہوا اس لیے آپ کا خلق عظیم تھا۔ کیا خوب کہا ہے خسرو علیہ الرحمہ نے ؎ انچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری یہ تین باتیں تین چیزوں کی قسم کھا کر بیان فرمائیں جن میں سے ہر ایک کو دوسری سے مناسبت تامہ ہے اور پھر ہر ایک کو ہر ایک چیز سے کہ جس کی قسم کھائی ہے عجب مناسبت ہے۔ اور مجموعہ کو مجموعہ سے مناسبت ہے۔ یہ کمال بلاغت ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ تینوں باتیں جداجدا بھی آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل ہیں اور مجموع مرکب ہو کر بھی جس کی تقریر اذہان صافیہ پر چھوڑتا ہے۔ پیشین گوئی : اس برہان قاطع کے بعد آنحضرت ﷺ کی صداقت کا آیندہ آنے والی نشانی سے پورا اطمینان دلاتا ہے اور ایک پیشین گوئی کرتا ہے جس کو اہل مکہ نے بہت جلد آنکھوں سے دیکھ لیا۔ فقال فستبصرو یبصرون کہ اے محمد ﷺ ! ابھی آپ بھی دیکھ لیں گے اور یہ لوگ بھی دیکھ لیں گے۔ کیا دیکھ لیں گے ؟ بعض علماء کہتے ہیں دنیا کی سزا جو بدر کے دن اور ایک قحط عظیم سے قریش کو ملی جس کے لیے آنحضرت ﷺ نے دعا کی تھی۔ بعض فرماتے ہیں، یہ عذاب آخرت کی طرف اشارہ ہے کہ مرنے کے بعد معلوم ہوجائے گا۔ مگر میں کہتا ہوں بایکم المفتون۔ یبصرون کا مفعول ہے بذریعہ ب تب یہ معنی ہوئے کہ ابھی معلوم ہوجائے گا کہ تم میں سے کون فتنے میں پڑا ہے، دیوانہ یا مقہور ہے چناچہ چند برسوں کے بعد جب آفتاب ہدایت اور بلند ہوا تو تمام عرب نے جان لیا کہ ہم گمراہی میں تھے ناحق پیغمبر خدا ﷺ کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ لونڈیاں اور غلام، بوڑھے اور بچے، شریف و وضیع سب کی آنکھوں میں ان کی وہ پہلی حالت جو بت پرستی اور ہر قسم کی بدکاری تھی مبتذل ہوگئی۔ یہ کوئی تھوڑی بات نہیں، کوئی شخص جو دراصل خدائے تعالیٰ کا فرستادہ نہ ہو اور اس کو اپنے نور باطن و تاثیر بےحد کا پورا بھروسہ نہ ہو ایسی جاہل ‘ بت پرست ‘ مغرور ‘ بدکار قوم کی نسبت یہ دعویٰ کرسکتا ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کی ایسی جلد کایا پلٹ دینے کا بیڑا اٹھایا اور نہ اٹھا سکتے تھے۔ اس اعجاز سے بڑھ کر دنیا میں کسی نبی نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا۔ اس لیے اس کے بعد فرماتا ہے، ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وھو اعلم بالمہتدین۔ کہ تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے رستے سے بچلا ہوا اور کون راستے پر ہے ؟ جو گمراہ ہے اور گمراہی کو ہدایت جانتا ہے اس سے بڑھ کر کون دیوانہ ہے اور ہدایت پانے والے سے جو سیدھی راہ چلا جا رہا ہے کون عقلمند ہے ؟ اس میں اشارہ ہے کہ وہی گمراہ ہیں اور وہی دیوانے ہیں۔ ان کے دیوانہ پن کی دلیل ان کی گمراہی ہے اور آپ اور آپ کے متبعین کے عاقل ہونے کی دلیل ہدایت پر ہونا ہے۔ یا یوں کہو کہ وہ جو اپنے آپ کو عاقل اور آپ کو دیوانہ کہتے ہیں جھوٹے ہیں۔ کس لیے کہ تو ہدایت پر اور وہ گمراہی پر ہیں۔ اور امتیاز جو ہدایت و گمراہی سے حاصل ہو وہ اس امتیاز سے بہتر ہے جو عقل و جنون سے حاصل ہو۔ کس لیے کہ وہ سعادت و شقاوت ابدیہ کا ثمرہ ہے اور یہ سعادت و شقاوت دنیویہ کا نتیجہ ہے۔ پھر جب یہ دیوانے ہیں اور دیوانگی سے جھٹلاتے ہیں تو فلاتطع المکذبین۔ ان جھٹلانے والوں کا کہا نہ مان کیونکہ وہ تجھے اسی حالت خراب کی طرف بلا رہے ہیں جس میں وہ خود مبتلا ہیں۔ دنیا میں جو مذہب و ملت کا جھگڑا اور لڑائی ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ ہدایت پانے والا دوسرے گمراہ بھائی کو دیکھ رہا ہے کہ یہ ڈوبا جاتا ہے اس لیے اس کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس کو ڈوبتا جان کر اس کے برخلاف کوشش کرتا ہے اور پھر ہر ایک فریق کو دوسرے سے رفتہ رفتہ رنج و عداوت بھی ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ جنگ وجدال ہوتا ہے۔
Top