Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 13
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ
قَالَ : فرمایا فَاهْبِطْ : پس تو اتر جا مِنْهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں يَكُوْنُ : ہے لَكَ : تیرے لیے اَنْ : کہ تَتَكَبَّرَ : تو تکبر کرے فِيْهَا : اس میں (یہاں) فَاخْرُجْ : پس نکل جا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الصّٰغِرِيْنَ : ذلیل (جمع)
فرمایا پس تو یہاں سے اتر جا، سو تجھے کوئی حق نہیں کہ اس میں تکبر کرے سو تو نکل جا ! بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے،
ابلیس کا نکالا جانا : ابلیس کو اس کی انا (میں) لے ڈوبی۔ اگر وہ واقعتہً آدم (علیہ السلام) سے افضل ہوتا تب بھی احکم الحاکمین کا حکم بجا لانا ضروری تھا۔ لیکن اللہ کے حکم کو غلط قرار دیا اور حجت بازی پر اترآیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فَاھْبِطْ مِنْھَا فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھَا) (تو یہاں سے اتر جا تیرے لیے یہ درست نہیں تھا کہ تو اس میں تکبر کرے) (فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ ) (تو نکل جا بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے) مِنْھَا اور فِیْھَا کی ضمیر کس طرف راجع ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی (ج 8 ص 90) لکھتے ہیں کہ ضمیر جنت کی طرف راجع ہے اور ابلیس پہلے سے وہاں رہتا تھا پھر حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ اس سے مراد دنیا کا ایک باغیچہ ہے جو عدن میں تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) وہیں پیدا کیے گئے تھے۔ (ابلیس کو وہیں سجدہ کرنے کا حکم ہو) اس نے سجدہ نہ کیا اور تکبر کیا تو وہاں سے نکل جانے کا حکم فرما دیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ بعض حضرات نے سماء یعنی آسمان کی طرف ضمیر راجع کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ایک جماعت کا قول ہے لیکن اس پر یہ اشکال کیا ہے کہ ابلیس کے مردود اور ملعون ہونے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کو جنت عالیہ میں ٹھہرایا گیا اور اس کے بعد ابلیس نے وسوسہ ڈالا اور ان کو بہکایا۔ اگر وہ اس سے پہلے ہی آسمان سے اتار دیا گیا تھا تو پھر اس نے کیسے وسوسہ ڈالا۔ اور یہ اشکال اس صورت میں بھی ہوتا ہے جبکہ سجدہ کا واقعہ عدن والے باغ میں مانا جائے، سجدہ کا انکار کرنے کے بعد عدن والے باغ سے نکال دینے کے بعد اس نے کیسے وسوسہ ڈالا ؟ سیدھی اور صاف بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ ابلیس عالم بالا میں یعنی اوپر ہی رہتا تھا اور سجدہ کا حکم جو ہوا وہ بھی وہیں عالم بالا ہی میں ہوا تھا۔ جب ابلیس نے سجدہ نہ کیا تو ابلیس وہاں سے نکال دیا گیا اور آدم و حوا ( علیہ السلام) کو جنت میں ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔ ابلیس عالم بالا سے نکالا تو گیا لیکن ابھی زمین پر نہیں آیا تھا کہ اس نے دونوں میاں بیوی کے دل میں وسوسہ ڈالا اور ان کو بہکا کر شجرہ ممنوعہ کھلانے پر آمادہ کردیا۔ وسوسہ کس طرح ڈالا اس کا کوئی جواب یقینی طور پر نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت حسن بصری (رح) سے مروی ہے کہ جنت کے دروازے پر کھڑے ہو کر دور سے آواز دیدی تھی۔ اس بارے میں اور بھی اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے بہر حال ابلیس ذلت کے ساتھ نکالا گیا۔ ملعون ہوا۔ اللہ کی رحمت سے دور ہوا۔ اس پر پھٹکار پڑی، دھتکارا گیا۔
Top