Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 83
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ۖ٘ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : ہم نے نجات دی اس کو وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : مگر امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی كَانَتْ : وہ تھی مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہنے والے
سو ہم نے نجات دی لوط کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے اس کی بیوی کے کہ وہ رہ جانے والوں میں سے تھی
اسی کو فرمایا (فَاَنْجَیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ) (سو ہم نے نجات دی لوط کو اور اس کے گھر کے لوگوں کو سوائے اس کی بیوی کے۔ یہ باقی رہ جانے والوں سے تھی) یعنی جو اہل ایمان بستیوں سے نکال دیئے گئے تھے تاکہ عذاب میں مبتلا نہ ہوں ان کے علاوہ جو لوگ تھے وہ انہی میں رہ گئی۔ سورۂ ہود میں ہے کہ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہا (فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہٗ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ اِنَّ مَوْعِدَھُمُ الصُّبْحُ اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ ) (سو تم رات کے ایک حصہ میں نکل جاؤ اور تم میں سے کوئی بھی مڑکر نہ دیکھے سوائے تمہاری بیوی کے، بیشک اسے عذاب پہنچنے والا ہے جو ان لوگوں کو پہنچے گا۔ ان کی ہلاکت کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے کیا صبح قریب نہیں ہے۔ ) مفسرین لکھتے ہیں یا تو ان کی بیوی ان کے گھر والوں کے ساتھ نکلی ہی نہ تھی یا ساتھ نکلی لیکن پیچھے مڑ کر دیکھ کر اپنی قوم کی ہلاکت پر افسوس ظاہر کرنے لگی۔ ایک پتھر آیا اور اسے وہیں قتل کردیا۔ سورة ہود اور سورة حجر میں (حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ) فرمایا اور سورة ذاریات میں (حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ ) فرمایا۔ دونوں جگہ کی تصریح سے معلوم ہوا کہ جو پتھر ان لوگوں پر برسائے گئے وہ یہ عام پتھر یعنی پہاڑوں کے ٹکڑوں میں سے نہ تھے بلکہ ایسے پتھر تھے جو مٹی سے پکا کر بنائے گئے ہوں جس کا ترجمہ کنکر سے کیا گیا اور مُسَوَّمَۃً بھی فرمایا اس کا معنی یہ ہے کہ ہر پتھر پر نشان لگا ہوا تھا کہ یہ فلاں شخص پر ہی گرے گا۔ اور سورة ہود میں جو مَنْضُوْدٍ ہے اس کے معنی ہیں کہ لگا تار پتھر برسائے گئے مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان بستیوں کا تختہ الٹ دیا۔ اس خطہ کو اوپر اٹھا کرلے گئے اور وہاں سے الٹا کر کے زمین کی طرف پھینک دیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جن بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ چار بستیاں تھیں جن کے نام مورخین و مفسرین نے سدوم، امورا، عاموراء اور صبویر بتائے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی بستی سدوم تھی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اسی میں رہتے تھے۔ یہ بستیاں نہراردن کے قریب تھیں۔ ان بستیوں کا تختہ الٹ دیا گیا اور ان کی جگہ بحرمیت جاری کردیا گیا جو آج بھی موجود ہے پانی کہیں دوسری جگہ سے نہیں آتا ہے صرف ان بستیوں کی حدود میں رہتا ہے۔ یہ پانی بد بو دار ہے جس سے کسی قسم کا انتفاع انسانوں کو یا جانوروں کو یا کھیتیوں کو نہیں ہوتا۔ سورۂ صافات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے۔ (وَاِِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُصْبِحِیْنَ وَبِالَّیْلِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) (اور تم ان پر صبح کے وقت اور رات کے وقت گزرتے ہو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے) اہل عرب تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے راستے میں یہ بستیاں پڑتی تھیں جن کا تختہ الٹ دیا گیا تھا کبھی صبح کے وقت اور کبھی رات کے وقت وہاں سے گزر ہوتا تھا ان لوگوں کو یاد دلایا کہ دیکھو کافروں، بد کاروں کا کیا انجام ہوا۔ تم وہاں سے گزرتے ہو اور نظروں سے دیکھتے ہو پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے۔ فائدہ : قرآن مجید کی تصریح سے معلوم ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جس فحش کام یعنی مردوں کے ساتھ شہوت رانی کا عمل کرنے میں لگی ہوئی تھی یہ عمل اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا۔ یہ عمل عقلاً و شرعاً و فطرۃً نہایت ہی شنیع اور قبیح ہے اور کبائر میں سے ہے۔ اس کی سزا کیا ہے ؟ اس کے بارے میں حضرات صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ یہ بھی ایک طرح کا زنا ہے اس کی سزا بھی وہی ہے جو زنا کی سزا ہے۔ یعنی بعض صورتوں میں سو کوڑے مارنا اور بعض صورتوں میں سنگسار کردینا (یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کردینا) ان دونوں سزاؤں کی تفصیلات کتب فقہ کی کتاب الحدود میں لکھی ہیں حضرت امام شافعی (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ اور ان کا ایک قول یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے اور ایک قول یہ ہے کہ دونوں کو سنگسار کردیا جائے۔ حضرت امام مالک (رح) کا بھی یہی ایک قول ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ اس کی کوئی ایسی سزا مقرر نہیں کہ ہمیشہ اسی کو اختیار کیا جائے بلکہ امیر المومنین اس کو مناسب جانے تو دونوں کو قتل کر دے۔ اور مناسب جانے تو سخت سزا دے کر جیل میں ڈال دے۔ یہاں تک کہ ان دونوں کی موت ہوجائے یا توبہ کریں اور اگر اس عمل کو دو بارہ کریں تو قتل کردیا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت میں ایک یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت خالد بن ولید ؓ نے ان کو خط لکھا کہ یہاں ایک ایسا آدمی ہے جس سے لوگ اسی طرح شہوت پوری کرتے ہیں جس طرح عورت سے شہوت پوری کی جاتی ہے۔ اس بارے میں حکم شرعی بتایا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرات صحابہ کو جمع فرمایا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ یہ ایسا گناہ ہے جسے صرف ایک ہی امت نے کیا ہے ان کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے معاملہ کیا وہ آپ سب کو معلوم ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس کو آگ میں جلا دیا جائے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا کہ اس فعل بد کی کیا سزا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ آبادی میں جو سب سے اونچی عمارت ہو وہاں سے اوندھے منہ کر کے پھینک دیا جائے پھر پیچھے سے پتھر مارے جائیں۔ یہ تفصیل فتح القدیر اور بحر الرائق میں لکھی ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح ص 313 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فاعل اور مفعول کو جلا دیا تھا اور حضرت ابوبکر ؓ نے ان دونوں پر دیوار گروا کر ہلاک کردیا تھا۔
Top