Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ اس کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف کے ساتھ نہ پکڑا ہو تاکہ وہ عاجزی کریں۔
جن بستیوں میں نبی بھیجے گئے ان کو خوشحالی اور بد حالی کے ذریعہ آزمایا گیا گزشتہ چند رکوع میں متعدد قوموں کی تکذیب اور تعذیب کا تذکرہ فرمایا۔ ان بستیوں کا حال بنی اسرائیل کو معلوم تھا اور قریش بھی تجارت کے لیے ملک شام کی طرف جاتے تھے وہ بھی ان میں سے بعض بستیوں پر گزرتے تھے اور اگر کسی کو ان کے حالات معلوم نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرما دیئے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے پڑھ کر سنا دیا۔ ان واقعات سے معلوم ہوگیا کہ سابقہ اقوام کی بربادی کا سبب ان کا کفر تھا اور ان کے اعمال بد تھے۔ اس رکوع میں اول تو یہ فرمایا کہ جس کسی بستی میں ہم نے نبی بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو تنبیہ کرنے کے لیے پکڑا۔ یہ گرفت سختی اور دکھ و تکلیف کے ذریعہ تھی بأساء سے سختی اور عام مصائب اور ضراء سے جسم و جان کی تکلیفیں مراد ہیں۔ ان کو یہ گرفت اس لیے تھی کہ یہ لوگ کفر و نافرمانی کی زندگی کو چھوڑ دیں اور اپنے خالق ومالک کے سامنے گڑگڑائیں اور عاجزی کریں اور کفر سے اور نا فرمانیوں سے توبہ کریں۔ لیکن یہ لوگ برابر طغیانی اور سر کشی پر تلے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی بد حالی کو اچھے حال سے بدل دیا۔ نعمتوں سے نوازا۔ خوشحالی عطا فرمائی۔ تندرستی دی۔ مال دیا، یہاں تک کہ جان و مال میں کثرت ہوگئی، پہلے تو تنگدستی و بد حالی کے ذریعہ آزمائے گئے تھے اب انہیں نعمتیں دے کر آزمایا گیا۔ پہلے امتحان میں تو فیل ہوئے ہی تھے دوسرے امتحان میں بھی فیل ہوگئے۔ نہ بد حالی میں مبتلا ہو کر راہ راست پر آئے نہ خوشحالی سے عبرت حاصل کی بلکہ الٹا یہ نتیجہ نکالا کہ اجی ! یہ خوشحالی کچھ ایمان اور کفر اور اچھے کاموں اور برے کاموں سے متعلق نہیں ہے۔ یہ دنیا کا الٹ پھیر ہے۔ کبھی خوشحالی کبھی بد حالی، ہمارے باپ دادوں پر بھی یہ دونوں حالتیں گزری ہیں۔ لہٰذا ہم اپنا دین کیوں چھوڑ دیں۔ ہمارے باپ دادے بھی اپنے دین پر جمے رہے ہم بھی مضبوط ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ تنگ دستی اور سختی سے عبرت لی اور نہ خوشحالی اور نعمتوں سے نوازے جانے پر شکر گزار ہوئے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اچانک ان کی گرفت فرما لی۔ نزول عذاب کا پتہ بھی نہ چلا، اور مبتلائے عذاب ہو کر ہلاک ہوگئے۔
Top