Anwar-ul-Bayan - An-Naba : 31
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًاۙ
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی لوگوں کے لئے مَفَازًا : کامیابی ہے
بلاشبہ متقیوں کے لیے کامیابی ہے،
اہل کفر اور اہل شرک کا انجام اور عذاب بتانے کے بعد متقی حضرات کے انعام و اکرام کا تذکرہ فرمایا، تقویٰ کے بہت سے درجات ہیں، سب سے بڑا تقویٰ یہ ہے کہ کفر و شرک سے بچے اور اس کے بعد گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ ہے اور اس کے بھی درجات مختلف ہیں حسب درجات انعامات ہیں فرمایا ﴿ اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًاۙ0031﴾ (بلاشبہ تقویٰ والوں کے لیے کامیابی ہے) یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جبکہ مفازا مصدر میمی ہو اور اگر اسم ظرف لیا جائے تو ترجمہ یوں ہوگا کہ (متقیوں کے لیے کامیابی کی جگہ ہے) اس کے بعد کامیابی پر ملنے والی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ﴿ حَدَآىِٕقَ وَ اَعْنَابًاۙ0032﴾ (یعنی ان حضرات کو باغیچے ملیں گے اور انگور ملیں گے) حدائق حدیقۃ کی جمع ہے جس باغ کی چار دیواری ہو اسے حدیقہ کہا جاتا ہے اور گو حدائق کے عموم میں انگور بھی داخل ہوگئے لیکن ان کو علیحدہ بھی ذکر فرمایا کیونکہ پھلوں کی یہ جنس دوسرے پھلوں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت رکھتی ہے، مزید فرمایا ﴿وَّ كَوَاعِبَ﴾ اور ساتھ ہی اترابا بھی فرمایا۔ کا عب نوخیز لڑکی کو کہتے ہیں : التی تکعب ثدیاھا واستدار مع ارتفاع یسیر اور اتراب ترب کی جمع ہے جس کا ترجمہ ہم عمر کیا گیا ہے، اس میں یہ بات بتادی کہ وہاں میاں بیوی سب ہم عمر ہوں گے۔ دنیا میں عمروں کے بےت کے تفاوت میں جو زوجین کو بدمزگی پیش آتی رہتی ہے اسے جاننے والے جانتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں جانے والا جو شخص بھی اس دنیا سے رخصت ہوگا چھوٹا ہو یا بڑا (داخلہ جنت کے وقت) سب تیس سال کے کردیئے جائیں گے اس سے کبھی آگے نہیں بڑھیں گے۔ رسول اللہ ﷺ کے مزاح کا ایک واقعہ جو سورة ٴ واقعہ کے پہلے رکوع کے ختم پر ہم نے لکھا ہے اس کی بھی مراجعت کرلی جائے۔ ﴿ وَّ كَاْسًا دِهَاقًاؕ0034﴾ (اور متقیوں کے لیے لبالب بھرے ہوئے جام ہوں گے) یہاں قدروھا تقدیرا کے مضمون سے اشکال نہ کیا جائے کیونکہ جنہیں اور جس وقت پورا بھرا ہو اجام پینے کی رغبت ہوگی انہیں لبا لب پیش کیا جائے گا۔ ﴿ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّ لَا كِذّٰبًاۚ0035﴾ (وہاں نہ کوئی لغو بات سنیں گے اور نہ کوئی جھوٹی بات) وہاں جو کچھ ہوگا سچ ہوگا اور نہ صرف یہ کہ کوئی غلط بات نہ ہوگی بلکہ جس بات کا کوئی فائدہ نہ ہوگا وہ وہاں سننے میں بھی نہ آئے گی۔ ایسی بات کو لغو کہا جاتا ہے۔
Top