Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
اے ایمان والو ! اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبر داری کرو، اور اس سے رو گردانی نہ کرو حالانکہ تم سنتے ہو،
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبر داری کا حکم ان آیات میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کی اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کا اور حکم کی تعمیل کرنے کا اور حکم بجالانے کا حکم فرمایا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے رو گردانی نہ کرو حالانکہ تم سنتے ہو، یعنی جب تم بات سن رہے ہو قرآن کا حکم تمہارے سامنے ہے رسول اللہ ﷺ حکم دے رہے ہیں تو عمل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور کوئی عذر نہیں جو عمل سے روکے، مزید فرمایا (وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ ھُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ) (اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں سنتے) ان سے کافر اور منافق مراد ہیں۔ ان کے کانوں میں تو بات جاتی ہے لیکن چونکہ دل کے کانوں سے نہیں سنتے اور پہلے ہی سے یہ طے کر رکھا ہے کہ ہمیں ماننا اور سمجھنا نہیں ہے اس لیے کانوں کا سننا نہ سننے کے برابر ہوجاتا ہے اور اس سننے سے بالکل منتفع نہیں ہوتے۔ پھر فرمایا (اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ ) (الآیۃ) یعنی بیشک زمین پر چلنے پھرنے والوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برے وہ لوگ ہیں جو گونگے اور بہرے ہیں سمجھ نہیں رکھتے دواب جمع ہے دابۃ کی، عربی لغت کے اعتبار سے دابہ مراد لیاجائے تو مطلب یہ ہے کہ زمین پر چلنے والی مخلوق میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ برے وہ لوگ ہیں جو نہ تو حق کو سنتے ہیں اور نہ حق بولتے ہیں اور ان کی انتہائی بری حالت یہ ہے کہ سمجھتے بھی نہیں۔ بہرا شخص بعض دفعہ کچھ اشارہ سے سمجھ تو لیتا ہے لیکن جس میں عقل ہی نہ ہو وہ تو کسی طرح سمجھتا ہی نہیں۔ یہ کافروں کی بد حالی ہے۔ اور اگر دابہ بمعنی چوپایہ لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اہل کفر چوپایوں کی طرح سے ہیں نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔ سورة فرقان میں فرمایا (اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰہَہٗ ھَوَاہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِِنْ ھُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا) (اے پیغمبر آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہے سو کیا آپ اس کی نگرانی کرسکتے ہیں یا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں، یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ ہیں) پھر فرمایا (وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَھُمْ وَ لَوْ اَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ ھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ) (اور اگر اللہ کے علم میں ہوتا کہ ان میں کوئی خیر ہے یعنی حق کی طلب ہے تو انہیں سنا دیتا) یعنی ایسے سننے کی توفیق دیتا جو سننا اعتقاد کے ساتھ ہو۔ اور یہ سننا ان کے لیے فائدہ مند بن جاتا اور چونکہ ان کو طلب حق نہیں ہے اس لیے اگر اللہ تعالیٰ ان کو سنائے تو رو گردانی کریں گے اور دوسری طرف رخ کر کے چل دیں گے۔ بات یہ ہے کہ جب طلب نہیں ہوتی تو کان میں پڑنے والی بات اثر نہیں کرتی اور ساری سنی ان سنی کے برابر ہوجاتی ہے۔ پھر فرمایا : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ للرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ) (اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کو بجا لاؤ جب اللہ کا رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندہ کرتی ہے) اس میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننے اور فرمانبر داری کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یوں فرمایا کہ وہ تمہیں ایک ایسی چیز کی طرف بلاتے ہیں جس میں تمہاری زندگی ہے اس سے حقیقی زندگی مراد ہے اور وہ ایمان و اعمال صالحہ والی زندگی ہے جس سے دنیاوی زندگی بھی زندگی بن جاتی ہے اور آخرت میں بھی ابدالآباد کی زندگی نصیب ہوگی، کفر کے ساتھ زندگی کوئی زندگی نہیں، زندگی اپنے آقا و خالق ومالک کی وفا داری کا نام ہے جو اپنے رب سے غافل ہے وہ زندہ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مثل الذی یذکر ربہ و الذی لا یذکر مثل الحی و المیت (مشکوٰۃ المصابیح ص 196 از بخاری) (مثال اس شخص کی جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا مردہ اور زندہ کی سی مثال ہے) جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہے وہ مردہ ہے اور جو اس کی یاد میں لگے ہوئے ہیں وہ زندہ ہیں۔ حیات ابدی کے لیے ایمان ضروری ہے اور اعمال صالحہ سے ایمان میں نورانیت آجاتی ہے اور اس میں ترقی ہوتی ہے۔ آخرت میں جو طرح طرح کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں گی ان میں اعمال صالحہ کو دخل ہوگا۔ اہل ایمان کی جنت والی زندگی کے بارے میں سورة عنکبوت میں فرمایا۔ (وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ ) (اور بیشک دار آخرت ہی زندگی ہے) اور اہل کفر کے بارے میں فرمایا (لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَ لَا یَحْیٰی) (کہ وہ اس میں نہ زندہ رہے گا اور نہ مرے گا۔ در حقیقت عذاب عظیم کے ساتھ جینا کوئی زندگی نہیں ہے۔ پھر فرمایا (وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہٖ ) ( اور جان لو کہ بلاشبہ اللہ حائل ہوجاتا ہے آدمی کے اور اس کے دل کے درمیان) صاحب روح المعانی (ص 191 ج 9) نے اس کا ایک معنی یہ بتایا ہے کہ اس سے قرب مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے قلب سے بھی زیادہ بندہ سے قریب ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آیت شریفہ (وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ) اور یہ آیت دونوں ہم معنی ہیں۔ پھر بعض حضرات نے نقل کیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ بندوں کے قلوب اللہ کے قبضہء قدرت میں ہیں وہ جیسے چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے۔ اس کے تصرف سے دلوں کے عزائم اور مقاصد بدل جاتے ہیں، وہ کسی کو رشد و ہدایت سے نوازتا ہے اور کسی کو صراط مستقیم سے ہٹا دیتا ہے۔ کسی کے امن کو خوف سے بدل دیتا ہے اور جو چیزیں یاد ہوں ان کو بھلا دیتا ہے۔ اس بارے میں انہوں نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے۔ جو حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا فرماتے تھے یَا مُقَلِّبَ القُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ (اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ) یہ سن کر حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کثرت سے یہ دعا فرماتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرما اے ام سلمہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کا دل اللہ کے قبضہء قدرت میں نہ ہو، جسے چاہے ہدایت پر قائم رکھے اور جسے چاہے ہٹا دے، صاحب روح المعانی نے اس حدیث کا حوالہ نہیں دیا۔ البتہ مفسر ابن کثیر ص 298 ج 2 نے بحوالہ مسند احمد یہ حدیث نقل کی ہے۔ اس حدیث کے ہم معنی حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے بھی روایت ہے جسے صاحب مشکوٰۃ نے صفحہ 20 پر صحیح مسلم سے نقل کیا ہے۔ آخر میں فرمایا (وَ اَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ) اور بلاشبہ تم اسی کی طرح جمع کیے جاؤ گے اس میں یوم آخرت کے استحضار کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ آخرت کا استحضار تمام امور دینیہ اور دنیویہ کے درست ہونے کا ذریعہ بن جاتا اور آخرت سے غفلت ہی عموماً گناہوں اور خرابیوں کا ذریعہ بنتی ہے۔
Top