Tafheem-ul-Quran - Al-Anfaal : 19
اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ١ۚ وَ اِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ١ۚ وَ لَنْ تُغْنِیَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَیْئًا وَّ لَوْ كَثُرَتْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠
اِنْ : اگر تَسْتَفْتِحُوْا : تم فیصلہ چاہتے ہو فَقَدْ : تو البتہ جَآءَكُمُ : آگیا تمہارے پاس الْفَتْحُ : فیصلہ وَاِنْ : اور اگر تَنْتَهُوْا : تم باز آجاؤ فَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاِنْ : اور اگر تَعُوْدُوْا : پھر کروگے نَعُدْ : ہم پھر کریں گے وَلَنْ : اور ہرگز نہ تُغْنِيَ : کام آئے گا عَنْكُمْ : تمہارے فِئَتُكُمْ : تمہارا جتھا شَيْئًا : کچھ وَّلَوْ : اور خواہ كَثُرَتْ : کثرت ہو وَاَنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو فیصلہ تمہارے سامنے آچکا ہے، اور اگر تم باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اور اگر تم پھر وہی کام کرو گے تو ہم بھی وہی کام کریں گے، اور تمہاری جماعت ہرگز تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔ اگرچہ کثیر تعداد میں ہو، اور بلاشبہ اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔
مشرکین سے اللہ تعالیٰ کا خطاب مفسرین نے لکھا ہے کہ ابو جہل نے بدر کے دن لڑائی ہونے سے پہلے یوں دعا کی تھی کہ اے اللہ ! یہ جو دو جماعتیں ہیں (ایک مومنین دوسرے مشرکین) ان میں سے جو بھی قطع رحمی میں بڑھ کر ہو اور جو ایسی چیز لے کر آیا ہو جسے ہم نہیں جانتے آج کی صبح اسے شکست دے دینا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب مشرکین بدر کے لیے روانہ ہونے لگے تو کعبہ شریف کے پردے پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی اور یوں کہا کہ اے اللہ دونوں لشکروں میں سے جو لشکر آپ کے نزدیک اعلیٰ ، اکرم اور بہتر ہو اس کی مدد فرمائیے۔ (ص 296 ج 2) ایک روایت میں یوں ہے کہ جب بدر کے دن دونوں جماعتیں مقابل ہوئیں تو ابو جہل نے کہا اے اللہ ہمارا دین قدیم ہے اور محمد کا دین نیا ہے۔ دونوں دینوں میں جو دین آپ کو محبوب ہو اور آپ اس سے راضی ہوں اسی دین کے اصحاب کی مدد کیجیے (روح المعانی ص 187 ج 9) مشرکین نے یہ دعا کی تھی جن میں ابو جہل پیش پیش تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دعاء قبول فرمائی اور جو دین اللہ کے نزدیک محبوب تھا اسی دین (یعنی اسلام) کے ماننے والوں کی مدد فرمائی اور ان کو فتح یاب فرمایا، آیت بالا میں اسی کا ذکر ہے کہ تم نے جو دعا کی تھی اور حق و باطل کا فیصلہ چاہا تھا وہ فیصلہ تمہارے سامنے آگیا اہل حق کی اللہ نے مدد فرمائی، اب تمہیں اپنی دعاء کے مطابق بھی کفر پر باقی رہنے کا کوئی موقعہ نہیں رہا۔ (وَ اِنْ تَنْتَھُوْا فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ) (اور اگر تم رسول اللہ ﷺ کی دشمنی سے اور آپ کے مقابلہ میں جنگ کے لیے آمادہ ہونے سے باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) یہ خطاب ان کافروں کو ہے جو قید کرلیے گئے اور جو کافر مکہ معظمہ ہی میں رہ گئے تھے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی ان سے فرمایا (وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ ) اور اگر تم پھر وہی کام کرو گے، جو پہلے کیا تھا یعنی اگر تم نے رسول اللہ ﷺ سے جنگ کرنے کے منصوبے بنائے اور جنگ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے تو پھر ہم وہی کریں گے جو مذکورہ جنگ یعنی غزوۂ بدر کے موقع پر کیا یعنی اہل ایمان کی مدد کریں گے ان کو فتح یابی دیں گے اور پھر تم ذلیل و خوار ہو گے (وَ لَنْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ فِءَتُکُمْ شَیْءًا وَّ لَوْ کَثُرَتْ ) اور یہ جو تم اپنی جماعت کو بڑی دیکھ رہے ہو اور اس کی جمعیت پر بھروسہ کر رہے ہو یہ کتنی بھی زیادہ ہوجائے تمہیں کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی، (وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (اور اللہ مومنین کے ساتھ ہے) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مشرکین عرب اور خاص کر مشرکین مکہ کے لیے اس بات کے سوچنے کی گنجائش نہیں رہی تھی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف پھر جنگ کرنے کا ارادہ کریں جب کہ اللہ نے ہمیشہ کے لیے مستقل اعلان فرما دیا کہ (وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) لیکن مشرکین کی پھر بھی آنکھیں نہ کھلیں اور غزوہ احزاب میں پھر قبیلوں اور جماعتوں کو لے کر مدینہ منورہ پر چڑھ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور ان کی بہت بڑی بھاری جمعیت تتر بتر ہو کر بھاگ گئی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ سے مسلمانوں کے ساتھ ہے اگر اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہوتی تو کفار تھوڑے سے مسلمانوں کو جو ابتدائے اسلام میں تھے بالکل ہی ختم کردیتے اور دین اسلام بالکل ہی آگے نہ بڑھتا۔ لیکن کافروں کی ہزاروں تدبیریں فیل ہوئیں۔ میدان جہاد میں ان کی بڑی بڑی بھاری جماعتیں مغلوب ہوئیں، ان میں سے لاکھوں مقتول ہوئے اور الحمدللہ ایمان ہمیشہ بڑھتا چڑھتا رہا اور آج بھی کافروں کی تدبیریں فیل ہیں ان کے دلوں میں ان کے گھروں میں ان کی موجودہ نسلوں میں اسلام داخل ہو رہا ہے۔ یورپ و امریکہ میں روزانہ اس کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ و لقد صدق اللہ و ان اللہ مع المومنین ( یقیناً اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ مومنین کے ساتھ ہے) دنیا میں جو کہیں مسلمانوں کی شکست ہے وہ ان کے فسق کی وجہ سے ہے۔ اسلام کے اعمال پر مستقیم نہیں ہیں۔ اخلاص سے بھی خالی ہیں۔ لہٰذا دشمنوں کے نرغے میں آجاتے ہیں۔
Top