Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 28
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّمَآ : درحقیقت اَمْوَالُكُمْ : تمہارے مال وَاَوْلَادُكُمْ : اور تمہاری اولاد فِتْنَةٌ : بڑی آزمائش وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗٓ : پاس اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اور تم جان لو کہ بیشک تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں اور بلاشبہ اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔
اموال اور اولاد فتنہ ہیں یہ دو آیتیں ہیں۔ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں۔ فتنہ امتحان کی چیز کو کہا جاتا ہے۔ مال اور اولاد کا فتنہ ہونا کئی وجوہ سے ہے۔ مال و اولاد کی مشغولیت اور محبوبیت صحیح طریقہ پر کام نہیں کرنے دیتی، جہاد کی شرکت سے باز رکھتی ہے۔ نماز بھی صحیح طریقہ سے پڑھنے نہیں دیتی، پوری زکوٰۃ ادا کرنے سے بھی نفس انکار کرتا ہے حج فرض ہوجاتا ہے تو برسوں تاخیر کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ حج فرض ہوتے ہوئے حج کیے بغیر مرجاتے ہیں اور دیگر فرائض و واجبات میں بھی دنیاوی مشاغل رکاوٹیں ڈالتے ہیں اللہ جل شانہٗ نے تنبیہ فرمائی کہ تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں یہ آزمائش کی چیزیں ہیں، آزمائش میں پورے اترو، مال اور اولاد تمہارے امتحان میں فیل ہونے کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ آیت میں لفظ اموال کو اولاد سے پہلے لایا گیا ہے بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے۔ کہ مال کا فتنہ اولاد کے فتنہ سے بڑھ کر ہے۔ حضرت کعب بن عیاض نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ان لکل امۃ و فتنۃً امتی المال (بلاشبہ ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے) ۔ 1 ؂ اول تو مال کمانے میں یہ دھیان کرنے کی ضرورت ہے کہ مال حلال ہو، حلال کمائی کے ذریعہ حاصل کیا ہو اور اس کے کمانے میں فرائض و واجبات کو ضائع نہ کیا ہو کمانے کے بعد اس کے خرچ کرنے کا مسئلہ ہے۔ خرچ کرنے کے بارے میں بھی شریعت کے احکام ہیں اور خلاف شرعی خرچ کرنے پر مواخذہ ہے، حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن بندہ کے قدم (حساب کی جگہ سے) نہیں ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ ہوجائے۔ 1۔ عمر کہاں فنا کی 2۔ جوانی کہاں گنوائی 3۔ مال کہاں سے کمایا 4۔ اور کہاں خرچ کیا 5۔ علم پر کیا عمل کیا۔ 2 ؂ معلوم ہوا کہ مال کے بارے میں دوہرا سوال ہوگا، دنیا میں دیکھتے ہیں کہ اول تو کمانے ہی میں حلال حرام کا خیال نہیں ہوتا اور پھر خرچ کرنے میں بھی شریعت کے احکام کی پابندی نہیں کی جاتی، اولاد کی محبت میں اور بیویوں کی فرمائش پوری کرنے کے لیے بہت سے حلال پیشے حرام راستے میں خرچ کردیتے ہیں پھر زیادہ مال کی طلب تو اور بھی زیادہ ناس کھو دیتی ہے، سود جوئے اور سٹہ بازی کے ذریعہ نیز رشوتیں دے کر اور رشوتیں لے کر، اور حرام چیزوں کا کارو بار کر کے اور اپنے شرکاء تجارت کی خیانت کر کے مزدوروں کا حق مار کر نمازیں برباد کر کے، اصحاب حقوق کے حقوق روک کر، مال جمع کیا جاتا ہے، ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے تو دنیا سے چلا جانا ہے یہ مال تو دوسروں کے قبضہ میں آئے گا میں دوسروں کے لیے اپنی آخرت کیوں خراب کروں ؟ لیکن بینک بیلنس کی فکر، نوٹوں کی گڈیوں کی محبت، اس چیز کو سوچنے نہیں دیتی۔ اولاد بھی فتنہ ہے، اولاد کی فرمائش پوری کرنے اور ان پر عمدہ مال خرچ کرنے اور ان کی شادیوں میں مال لگانے اور موت کے بعد ان کے لیے مال چھوڑنے اور ان کے لیے گھر در بنانے میں بہت سے گناہ ہوتے ہیں اور خلاف شرع بہت سے کام کیے جاتے ہیں۔ جو چیز امتحان کے لیے دی گئی تھی اس کی مشغولیت اور محبوبیت میں بہت سے گناہ کر بیٹھتے ہیں۔ مومن بندوں کو ہمیشہ فکرمند رہنا چاہئے کہ کہیں اموال و اولاد کی محبت میں پڑ کر امتحان میں فیل نہ ہوجائیں۔ فیل ہونے پر جہاں عذاب کی وعیدیں ہیں وہاں امتحان میں کامیاب ہونے پر اجر عظیم کا وعدہ بھی ہے آیت کے اخیر میں اسی کو فرمایا (وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ) (اور بلاشبہ اللہ کے نزدیک بڑا اجر ہے) ۔
Top