Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! جب تم کسی جماعت سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ،
دشمنوں سے مقابلہ ہوجائے تو جم کر مقابلہ کرو اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو ان آیات میں اہل ایمان کو یہ حکم دیا ہے کہ جب کبھی کسی جماعت سے تمہارے مڈ بھیڑ ہوجائے یعنی جنگ اور لڑائی کی نوبت آجائے تو ثابت قدمی کے ساتھ جم کر مقابلہ کرو حضرت عبداللہ بن اوفیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دشمن سے مڈ بھیڑ ہونے کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو پھر جب مڈ بھیڑ ہوجائے تو جم کر لڑو۔ اتنا مضمون صحیح بخاری ص 424 ج 2 میں ہے۔ مسند دارمی ص 135 ج 2 میں یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کی ہے اس میں یوں ہے کہ دشمن سے مقابلہ ہونے کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو، سو جب تمہاری مڈ بھیڑ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو۔ سو اگر دشمن چیخیں، چلائیں تو تم خاموشی اختیار کرو۔ حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ سوال تو عافیت ہی کا کرتے رہیں اور جب دشمنان دین سے لڑنے کا موقعہ آجائے تو کمزوری نہ دکھائیں ثابت قدم رہیں جم کر لڑیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی کریں اور قتال کے آداب میں سے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ خاموشی سے لڑیں۔ شور و شغب سے بچیں۔ حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین مواقع میں اللہ تعالیٰ کی خاموشی محبوب ہے۔ تلاوت قرآن کے وقت اور قتال کے وقت اور جس وقت جنازہ حاضر ہو۔ (ذکرہ الحافظ ابن کثیر فی تفسیرہ ص 316 ج 2) خوب مضبوطی اور جماؤ کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا (وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا) اور اللہ کو خوب زیادہ یاد کرو۔ یوں تو اللہ کا ذکر ہر وقت ہونا چاہئے لیکن خاص کر جنگ کے موقعہ میں اس کی اہمیت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا، مدد مانگنا، تسبیح و تہلیل میں مشغول رہنا یہ سب اللہ کا ذکر ہے۔ مومن بندہ لڑتا ہی اللہ کے لیے ہے۔ اس کا مرنا اور جینا اللہ کے لیے ہے۔ پھر جنگ کے وقت اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کا تو کوئی موقعہ ہی نہیں۔ اس موقعہ پر ذکر کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ بظاہر جنگ کی طرف پوری مشغولیت ہو اور باطن اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو اور زبان پر اللہ کا ذکر جاری ہو یہ مومن کی خاص شان ہے۔ حضرت سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ نماز، روزے اور ذکر ان سب کا ثواب فی سبیل اللہ (عزوجل) مال خرچ کرنے کی بہ نسبت سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے (رواہ ابو داؤد ص 258 ج 2) اور ذکر کا ثواب اس سے سات سو گنا زیادہ ہے۔ نیز سہل بن معاذ اپنے والد سے یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے فی سبیل اللہ ایک ہزار آیات پڑھ لیں اللہ تعالیٰ اسے انبیاء اور صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ لکھ دے گا۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک و قال صحیح الاسناد کمافی الترغیب ص 267 ج 2) پھر فرمایا (لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) جم کر لڑیں گے ثابت قدم رہیں گے۔ اللہ کا ذکر کریں گے تو کامیاب ہوں گے۔ دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوگی۔
Top