Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 46
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور لَا تَنَازَعُوْا : آپس میں جھگڑا نہ کرو فَتَفْشَلُوْا : پس بزدل ہوجاؤگے وَتَذْهَبَ : اور جاتی رہے گی رِيْحُكُمْ : تمہاری ہوا وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو بلاشبہ اللہ صابروں کے ساتھ ہے،
آپس میں جھگڑنے سے ہوا خیزی ہوجاتی ہے : پھر فرمایا (وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ ) (اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی) (وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ ) (اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا خیزی ہوجائے گی) ۔ اور آپس میں جھگڑنے کی وجہ سے ساکھ ختم ہوجاتی ہے اور مسلمانوں کے با ہمی اختلاف اور انتشار کو دیکھ کر دشمن بےخوف ہوجاتے ہیں اور ان کے دلوں سے مسلمانوں کی ہیبت جاتی رہتی ہے۔ باہمی اختلاف ضعف کا سبب ہے۔ قلوب مجتمع نہ رہیں تو اجسام بھی اتحاد اور اعتماد کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ کافروں کو شکست دینے کی بہت سی تدبیریں ہیں (مثلاً جنگی مشقیں اور اسلحہ کی فراہمی وغیرہ) ان سب سے بڑھ کر باہمی اتحاد اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ ثابت قدمی بھی جب ہی حاصل ہوتی ہے جب آپس میں انتشار نہ ہو۔ آخر میں فرمایا (وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ) (اور صبر کرو بلاشبہ اللہ صابروں کے ساتھ ہے) ۔ اہل ایمان کے لیے صبر بہت بڑی چیز ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوگی کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہو۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، خانگی حالات ہوں یا دوسرے معاملات ہر حال میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے بڑے بڑے مسائل حل ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نا گوار چیزوں کو برداشت کرلینا بڑے اجر وثواب کا اور دنیاوی حالات میں اور اپنوں اور پرایوں کے معاملات میں کامیابی کے ساتھ گزرتے ہوئے چلے جانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، آپس کے نزاع سے بچنے کا حکم دینے کے بعد ساتھ ہی صبر کا حکم دینے میں اس بات کی طرف رہنمائی ہے کہ آپس کا اتحاد صبر اختیار کرنے سے باقی رہ سکتا ہے۔ جب کچھ آدمی آپس میں مل کر رہتے ہوں خواہ ایک ہی گھر کے افراد ہوں۔ آپس میں کچھ نہ کچھ ایک دوسرے کی جانب سے قول یا فعل کے اعتبار سے نا گواری پیش آجاتی ہے ایک جماعت جہاد کے لیے نکلے یا نکلنے کا ارادہ کرے تو باہمی مشوروں میں اختلاف رائے ہونے کا امکان رہتا ہے بلکہ اختلاف واقع ہوجاتا ہے۔ طبائع بھی مختلف ہوتی ہیں۔ جب تک برداشت نہ ہو اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشورہ کرنے بیٹھیں تو اپنی اپنی رائے دے کر فارغ ہوجائیں۔ کوئی شخص اپنی رائے پر اصرار نہ کرے، اگر اصرار کرنے لگیں تو وہیں لڑائی ہوجائے گی اور مشورے کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ ایک کی رائے دوسرے کے خلاف ہو تو صبر کرے اور پھر جو امیر کسی کی رائے یا اپنی رائے کو ترجیح دیدے تو اپنی رائے کے مخالف ہونے کی وجہ سے دلگیر نہ ہو بلکہ صبر کرے۔ حتیٰ کہ اگر کسی کی رائے کے خلاف اختیار کرلینے سے کوئی نقصان پہنچ جائے تب بھی امیر کو طعنہ نہ دے کہ دیکھا ہم نے کیا کہا تھا ؟ اتحاد کے لیے بڑے صبر اور ثبات کی ضرورت ہوتی ہے ناگواریوں کو بشاشت کے ساتھ قبول اور برداشت کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو ان کے عہدہ سے معزول کردیا تو انہوں نے بشاشت سے قبول کرلیا اور کوئی محاذ آرائی نہیں کی۔ لہٰذا مسلمانوں کا شیرازہ بندھا رہا، اگر وہ چاہتے محاذ بنا لیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور حسب سابق جہاد کے کاموں میں مشغول رہے۔ در حقیقت اصل اطاعت وہی ہے جو طبعی نا گواری کے ساتھ ہو۔ اگر ہر شخص یوں چاہے کہ ہمیشہ میری چلے تو کبھی بھی اجتماع نہیں ہوسکتا۔ انتشار ہی رہے گا اور اس سے ہوا خیزی ہوگی۔
Top