Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 69
فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَكُلُوْا : پس کھاؤ مِمَّا : اس سے جو غَنِمْتُمْ : تمہیں غنیمت میں ملا حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
سو کھاؤ اس میں سے جو تمہیں بطور غنیمت کے مل گیا حلال پاکیزہ ہونے کی حالت میں، اور اللہ سے ڈرو۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس کے بعد فرمایا (فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا) (سو کھاؤ اس میں سے جو تمہیں بطور غنیمت کے مل گیا حلال پاکیزہ ہونے کی حالت میں) بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے کر جو ان کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کردیا گیا تھا اس پر عتاب تو ہوا لیکن اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اپنی مہربانی سے اس مال کو حلال اور طیب قرار دے کر کھانے کی اجازت مرحمت فرما دی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا (و اتقوا اللہ) (کہ اللہ سے ڈرو) اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے احتراز کرو (اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ) (بلاشبہ اللہ بخشنے والا ہے اس نے تمہارے گناہ معاف فرمائے) رَّحِیْمٌ (رحم فرمانے والا) جو کچھ تم نے کافروں سے لیا اس کے بارے میں تم پر رحم فرمادیا اور تمہارے لیے حلال قرار دے دیا۔ مفسر ابن کثیر ص 326 ج 2 نے لکھا ہے۔ فعند ذلک اخذوا من الاساری الفداء جس کا مطلب یہ ہے کہ مال لینے کے فیصلے پر عتاب ہوا تھا پھر جب مال لینے کی اجازت دے دی گئی تو قیدیوں سے مال وصول کرلیا گیا۔ اور معالم التنزیل میں یوں لکھا ہے کہ جب پہلی آیت نازل ہوئی تو جو کچھ بطور فدیہ مال لے چکے تھے اس سے پرہیز کرتے رہے جب آیت (فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ ) نازل ہوئی تو اس مال کو استعمال کرلیا، ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں سے پہلے مال لے لیا گیا ہو اوراقرب یہی ہے کیونکہ سب کے پاس اس وقت اموال موجود نہیں تھے۔ قیدیوں میں حضور اقدس ﷺ کے داماد ابو العاص بن الربیع اور آپ کے چچا عباس بن عبدالمطلب بھی تھے۔ آپ نے صحابہ سے اجازت لے کر ابو العاص کو فدیہ لیے بغیر چھوڑ دیا اور ان سے فرمایا کہ تم مکہ معظمہ پہنچ کر زینب کو بھیج دینا۔ (زینب آنحضرت ﷺ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں) آپ نے جب ہجرت فرمائی تھی تو وہی رہ گئی تھیں۔ اس لیے ان سے فرمایا کہ زینب کو بھیج دینا، انہوں نے وعدہ کو پورا کیا اور حضرت زینب ؓ کو بھیج دیا اور پھر بعد میں خود بھی اسلام قبول کرلیا۔ کما ذکرہ الحافظ ابن حجر فی الاصابۃ فی حرف العین۔ (جیسا کہ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں حرف عین کے باب میں ذکر کیا ہے) ۔ حضرت عباس مشرکین کے لشکر میں آئے تھے اور بیش اوقیہ سونا لے کر چلے تھے تاکہ اپنے ساتھیوں کو کھلاتے پلاتے رہیں (ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا) اب ان کے پاس بیس اوقیے رہ گئے تھے وہ بیس اوقیے صحابہ ؓ نے ان سے مقام بدر میں لے لیے تھے۔ جب قید کر کے لائے گئے اور ان سے سوال ہوا کہ فدیہ دو تو انہوں نے کہا کہ وہ جو بیس اوقیے لے لیے ہیں انہیں کو میری جان کے فدیہ میں لگا لیں، آنحضرت سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ جو چیز تم ہمارے مقابلے میں خرچ کرنے کے لیے لے کر آئے تھے وہ تمہارے حساب میں نہیں لگ سکتی۔ عباس نے یوں بھی کہا کہ یا رسول اللہ میں تو مسلمان تھا آپ نے فرمایا اگر تم مسلمان تھے تو اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے دے گا۔ ہمارے نزدیک بظاہر تم مقابلہ کرنے کے لیے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ لہٰذا تم اپنی جان کا بھی فدیہ دو اور اپنے دونوں بھتیجوں نوفل بن حارث اور عقیل بن أبی طالب اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا بھی فدیہ دو ۔ عباس نے کہا کہ اے محمد ﷺ تم مجھے اس حال میں چھوڑنا چاہتے ہو کہ زندگی بھر قریش سے بھیک مانگا کروں۔ میرے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ اس قدر فدیہ دے سکوں۔ آپ نے فرمایا وہ مال کہاں ہے جو تم نے اور تمہاری بیوی ام الفضل نے مل کر دفن کیا ہے۔ تم نے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ اگر میں اس سفر میں مقتول ہوگیا تو یہ مال میرے بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ اور فضل اور قثم کے کام آئے گا۔ عباس نے کہا اللہ کی قسم یا رسول اللہ اس بات کا علم میرے اور ام الفضل کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہے۔ آپ کو کس نے بتایا ؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے رب تعالیٰ شانہٗ نے بتایا۔ اس پر عباس کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں اور وہ بات پھر دہرائی کہ وہ جو بیس اوقیہ میدان جنگ میں مجھ سے لے لیا گیا ہے۔ وہ میرے فدیہ کے حساب میں لگا لیا جائے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ وہ حساب میں نہیں لگ سکتا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں (بطور مال غنیمت کے) عطا فرمایا ہے۔ لہٰذا عباس نے اپنا فدیہ بھی دیا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا بھی اور اپنے حلیف کا بھی۔ (من معالم التنزیل ص 263 ج 2 و ابن کثیر ص 367 ج 2) حضرت عباس نے اپنا اسلام تو فدیہ کے دن ہی ظاہر کردیا تھا لیکن اس وقت مکہ معظمہ چلے گئے تھے پھر مکہ معظمہ فتح ہونے سے کچھ پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے۔ (کمافی الاصابۃ، حرف العین) فائدہ : معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ ہر قیدی کا فدیہ چالیس اوقیہ تھا اور ہر اوقیہ چالیس درھم کا ہوتا تھا اس طرح سے ہر قیدی کا فدیہ سولہ سو درہم ہوا اور روح المعانی میں لکھا ہے کہ ہر ایک قیدی کا فدیہ سو اوقیہ تھا اور اس کے علاوہ اور بھی بعض اقوال ہیں۔ فائدہ : چونکہ صحابہ کے مشورے سے یہ طے ہوگیا تھا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور جو مال ان سے لے لیا گیا اس میں صحابہ کا بھی حصہ ہوگیا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس میں کسی اپنے پرائے کی رعایت نہیں فرمائی اپنے چچا عباس سے بھی فدیہ لیا اور اپنے دو چچا زاد بھائیوں کا فدیہ بھی چچا سے وصول فرمایا۔ انہوں نے جو یہ کہا کہ میں مسلمان تھا (زبردستی جنگ میں شریک کرلیا گیا) تو اس کے جواب میں آپ ﷺ نے صاف طور پر فرما دیا کہ دلوں کا حال اللہ جانتا ہے ہم تو ظاہر پر قانون نافذ کرنے والے ہیں۔ تم مخالفین کے ساتھ لڑنے والوں میں شامل ہو کر آئے تھے۔ قیدی ہوگئے ہم تو فدیہ لے کر ہی چھوڑیں گے۔ لہٰذا ان سے فدیہ لیا۔ صحیح بخاری ص 428 ج 1 میں ہے کہ انصار میں سے بعض صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ اجازت دیجیے کہ ہم عباس کی جان کا بدلہ چھوڑ دیں۔ آپ نے فرمایا نہیں ایک درہم بھی نہ چھوڑو اور اپنے داماد ابو العاص ابن الربیع کا جو فدیہ چھوڑا وہ بھی حضرات صحابہ ؓ سے اجازت لے کر چھوڑا تھا۔ یہ قانون میں مساوات اختیار کرنے کا ایک نمونہ ہے لوگ مساوات کا نام تو لیتے ہیں لیکن جب اپنے پرائے کا سوال آتا ہے تو قانون بھول جاتے ہیں قانون غیروں کے لیے ہوتا ہے اور اپنی جان اور اپنے لوگ قانون سے بالا تر ہوتے ہیں۔ یہ اسلام کے طریقے کے خلاف ہے۔
Top