Asrar-ut-Tanzil - Adh-Dhaariyat : 4
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
لَا يَزَالُ : ہمیشہ رہے گی بُنْيَانُھُمُ : ان کی عمارت الَّذِيْ : جو کہ بَنَوْا : بنیاد رکھی رِيْبَةً : شک فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلَّآ : مگر اَنْ تَقَطَّعَ : یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں قُلُوْبُھُمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
انہوں نے جو عمارت بنائی وہ ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی۔ اِلاّ یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
پھر فرمایا (لَا یَزَالُ بُنْیَانُھُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِھِمْ ) کہ انہوں نے جو یہ عمارت بنائی ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی کیونکہ جس غرض سے مسجد بنائی تھی پوری نہ ہوئی پھر وہ منہدم کردی گئی، اور جلا دی گئی اور بنانے والوں کی رسوائی بھی ہوئی۔ یہ ان کے دلوں کا کانٹا ہے جو ہمیشہ چبھتا رہے گا۔ (اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ ) مگر یہ کہ ان کے دلوں میں ٹکڑے ہوجائیں یعنی وہ مرجائیں گے تو یہ دلوں کی کھٹک ختم ہوگی، نہ خود رہیں گے نہ کھٹک رہے گی۔ (البتہ آخرت میں جو عذاب ہوگا وہ اپنی جگہ مستقل ہے) (وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) اور اللہ علم والا ہے اور حکمت والا ہے۔ فائدہ : جو مسجد تقویٰ کی بنیاد پر بنائی گئی اس سے کون سی مسجد مراد ہے ؟ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مسجد مراد ہے۔ لیکن بعض روایات میں ہے کہ اس سے مسجد نبوی مراد ہے۔ صحیح مسلم (ص 447 ج 1) میں ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ گھر میں تشریف رکھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ دونوں مسجدوں میں سے وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔ آپ نے کچھ کنکریاں اپنی مٹھی میں لیں اور ان کو زمین پر مار دیا اور فرمایا کہ مسجد نبوی یہ میری مسجد ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰیسے مسجد نبوی مراد ہے۔ محققین نے فرمایا ہے اس میں کوئی تعارض کی بات نہیں دونوں مسجدیں (مسجد قباء اور مسجد نبوی) آنحضرت ﷺ کی بنائی ہوئی ہیں۔ اور دونوں کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ آپ کا یہ فرمانا کہ اس سے میری مسجد مراد ہے۔ اس میں اس کی نفی نہیں ہے کہ مسجد قباء کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ فائدہ : اگر کوئی شخص دور حاضر میں تفریق بین المسلمین یار یاو نمود کے لیے اور ضد کی وجہ سے کوئی مسجد بنا دے تو چونکہ اس کی نیت خیر نہیں اس لیے اس مسجد بنانے کا ثواب نہ ملے گا۔ بلکہ وہ اپنی بری نیت کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ لیکن چونکہ یقینی طور پر دلوں کا حال بندوں کو معلوم نہیں اس لیے اس کو گرانا اور جلانا جائز نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق مسجد بنانے والے سے معاملہ فرمائے گا۔ اور اس مسجد کے آداب و احکام وہی ہوں گے جو دیگر مساجد کے ہیں۔ اگر کوئی شخص ریا و نمود اور ضد وعناد کے لیے مسجد بنائے تو بہتر ہے کہ اس میں نماز نہ پڑھی جائے تاکہ اسے رسوائی کی سزا مل جائے لیکن اگر کسی نے اس میں نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی۔ فائدہ : شیطان بہت چالاک ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو متعدد طریقوں سے استعمال کرتا ہے۔ دین اور اہل دین کے خلاف کسی کو کھڑا کرنا ہو تو دین سے متعلقہ چیزوں ہی کو سامنے لاتا ہے اور اسی کو ذریعہ بنا کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور اسلام کے نقصان پہنچانے کی تدبیر کرتا ہے۔ منافقین نے جو کفر اور نفاق اور اسلام کے خلاف محاذ آرائی اور جنگی تیاری کے لیے مرکز بنایا اس کا نام انہوں نے مسجد تجویز کردیا اور سید عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس میں نماز پڑھنے کی درخواست کی تاکہ اس کے مسجد ہونے میں عامۃ المسلمین کو شبہ نہ رہے۔ اور جیسے خوشی کے ساتھ مسجد قباء میں نماز پڑھتے ہیں اسی طرح ان کی اس مسجد ضرار میں نماز پڑھتے رہیں۔ مقصد یہ تھا کہ اس تدبیر سے ہماری دشمنی پوشیدہ رہے گی اور ہماری نیتوں پر پردہ پڑا رہے گا اور اپنے مقصد بد میں چپکے چپکے آگے بڑھتے رہیں گے۔ یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسی تدبیریں کرتے رہتے ہیں اور بہت سے نام نہاد مسلمانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ اس کی سب سے پہلی کڑی شیعیت کی بنیاد ہے۔ جب یہود کو اسلام کی ترقی بہت زیادہ کھلنے لگی تو انہوں نے پیش رفت کو روکنے کے لیے اور حضرات صحابہ کرام ؓ سے اور خاص کر حضرات شیخین حضرت ابوبکر و حضرت عمر ؓ سے کاٹنے کے لیے ایک شوشہ چھوڑا۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو ان کے والد ماجد کی میراث نہیں دی گئی ﷺ چونکہ اس میں حضرت سیدہ فاطمہ کی ہمدردی سامنے رکھی گئی اس لیے بہت سے سیدھے سادھے لوگ ان کے جال میں پھنس گئے اور حضرت صدیق اکبر ؓ کے مخالف ہوگئے کہ انہوں نے میراث نہیں دی۔ جیسے مسجد ضرار والوں نے اپنے مرکز فساد کو مسجد کے نام سے موسوم کیا جو اسلامی شعائر میں سے ہے اسی طرح یہود نے اس موقع پر حضرت سیدنا فاطمہ ؓ کی مظلومیت کو سامنے رکھ کر شیعیت کا آغاز کیا۔ ہر مسلمان کو آنحضرت سید عالم ﷺ کی آل اولاد سے قلبی تعلق ہے اس لیے اہل بیت کی ہمدردی اور غم خواری کا دم بھرنا سیدھے سادھے مسلمانوں کو راہ حق سے ہٹانے کے لیے کار گر ہوگیا۔ اس کے بعد شیعیت کے علم برداروں نے یہ نکتہ نکالا کہ حضرت مرتضیٰ علی ؓ خلافت کے مستحق تھے انہیں خلافت نہیں دی گئی حضرت علی ؓ سے تمام مومنین کو محبت ہے اس لیے ان کی ذات کو سامنے رکھ کر یہودیوں نے اپنا کام اور آگے بڑھایا۔ پھر استاد یعنی یہودی خواہ الگ ہوگئے ہوں لیکن جن لوگوں کو گمراہ کردیا تھا ان کے اتنے زیادہ فرقے بنے کہ ان کا شمار بھی دشوار ہے۔ حتیٰ کہ ایک فرقہ حضرت علی کی الوہتو کا بھی قائل ہوگیا اور پھر طرح طرح کے فتنے اٹھے اور ہر جماعت کے قائد نے اپنے پیش نظر کوئی دینی بات ہی رکھی اور اپنے اوپر ایسا لیبل لگایا جس کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں (نام دین کا ہو اور کام کفر کا) دور حاضر میں ایسی بہت سی جماعتیں ہیں جن میں سے ایک جماعت نے اپنا نام اہل قرآن رکھا ہے۔ یہ لوگ اپنے خیال میں قرآن کو اکابر اہل علم سے زیادہ جانتے ہیں۔ حالانکہ عربی کے صیغے بھی نہیں بتاسکتے اور کسی آیت کی ترکیب نحوی سے بھی واقف نہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے خدمت قرآن کا لیبل لگا کر سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے احادیث شریفہ کی حجیت کے بھی منکر ہیں اور نمازوں کی فرضیت کے بھی اور ضروریات دین کو نہیں مانتے۔ ہیں کافر لیکن قرآن دانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور سادہ مسلمانوں کو (جن کا علماء سے ربط نہیں ہے) قرآن کے نام پر اپنی گمراہی کے جال میں پھانس لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ آپ کی محبت ہر مومن کے دل میں ہے اس لیے حُبِّ نبی کا نام سن کر بہت سے لوگ ان کے ہمنوا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کی جھوٹی محبت کا یہ عالم ہے کہ قرآن کو بھی جھٹلا دیتے ہیں اور رسول ﷺ کے ارشادات کو بھی نہیں مانتے۔ حب نبی ﷺ کا عنوان ان لوگوں کا ظاہری لیبل ہے جس سے عامۃ الناس کو متاثر کرتے ہیں اور اپنے ایجاد کردہ عقائد اور اعمال پر جمنے کے لیے قرآن و حدیث کی تصریحات کو جھٹلا دیتے ہیں۔ اسی سلسلہ کی ایک یہ بات ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بشر نہیں تھے۔ حالانکہ قرآن کریم میں آپ کو بشر فرمایا ہے آپ نے خود فرمایا کہ میں بشر ہوں لیکن یہ لوگ آیات اور احادیث کو نہیں مانتے اور عجیب بات یہ ہے کہ محبت کے دعویدار بھی ہیں۔ یہ عجیب محبت ہے کہ جس سے محبت ہے اس کے ارشادات سے انحراف ہے اسی طرح کی بہت سی باتیں مستشرقین نے ریسرچ کے نام پر پھیلا رکھی ہیں اور ان کے لیے نام نہاد مسلمانوں کو استعمال کرتے ہیں نام تحقیق کا اور کام اسلامیات سے منحرف ہونے کا اور دوسروں کا منحرف کرنے کا۔ اعاذنا اللہ تعالیٰ من جمیع أھل الفتن۔ انگریزوں کو اپنے اقتدار میں یہ خوف لا حق ہوا کہ کہیں مسلمان جہاد کے لیے کھڑے نہ ہوجائیں اس لیے انہیں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اسلام ہی کی راہ سے جہاد کو منسوخ کرائیں۔ جہاد اسلام کا بہت بڑا عمل ہے۔ اپنے وفا دار نام نہاد علماء سے منسوخ کراتے تو کون مانتا اس لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا پھر اس سے جہاد منسوخ ہونے کا اعلان کرا دیا وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح مسلمان جہاد کو منسوخ مان لیں گے۔ انہیں یہ پتہ نہ تھا کہ مسلمان انگریزوں کے بنائے ہوئے نبی کو کافر قرار دیدیں گے۔ اور اس کی جھوٹی نبوت کو ماننے سے انکار کردیں گے۔ بہر حال انہوں نے اپنا یہ حربہ استعمال کیا یعنی ایک شخص سے نبوت کا اعلان کرا کے جہاد منسوخ کرانے کی سعی لا حاصل کی۔ بہت سے لوگ قبروں کے مجاور بنے ہوئے ہیں شرک اور بدعات میں مبتلا ہیں، عوام کو قبروں پر بلاتے ہیں، چڑھاوے چڑھواتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے اس طریقہ کار کو غیر شرعی بتاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ اولیاء اللہ کو نہیں مانتے، ان لوگوں کے اولیاء اللہ کے ناموں کو جعل سازی اور کسب دنیا کا ذریعہ بنارکھا ہے اور اس طرح کے بہت سے نعرے ہیں جو دشمنان دین، دین کے نام پر لگاتے رہتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منھم۔
Top