Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر نَّكَثُوْٓا : وہ توڑ دیں اَيْمَانَهُمْ : اپنی قسمیں مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد سے عَهْدِهِمْ : اپنا عہد وَطَعَنُوْا : اور عیب نکالیں فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَقَاتِلُوْٓا : تو جنگ کرو اَئِمَّةَ الْكُفْرِ : کفر کے سردار اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَآ : نہیں اَيْمَانَ : قسم لَهُمْ : ان کی لَعَلَّهُمْ : شاید وہ يَنْتَهُوْنَ : باز آجائیں
اور اگر وہ لوگ اپنے معاہدہ کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو تم کفر کے سر غنوں سے جنگ کرو بلاشبہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کے یہاں قسمیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔
کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو، ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ان آیات میں قریش مکہ کی بد عہدی اور عہد شکنی کا تذکرہ ہے اور ان سے جنگ کرنے کی ترغیب ہے۔ ان لوگوں سے 6 ھ میں حدیبیہ کے مقام پر معاہدہ ہوا تھا۔ جس کی دس شرطوں میں سے ایک یہ شرط بھی تھی کہ دس سال تک ایک فریق دوسرے فریق پر حملہ آور نہ ہوگا اور نہ کوئی فریق کے حلیف پر حملہ کرے گا اور نہ کسی حملہ آور کی مدد کرے گا لیکن قریش مکہ نے معاہدہ توڑ دیا اور قبیلہ بنی خزاعہ (جو رسول اللہ ﷺ کا حلیف تھا) کے خلاف قریش مکہ نے قبیلہ بنی بکر کی ہتھیاروں سے اور جوانوں سے مدد کی۔ اب جبکہ انہوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا، اور نہ صرف یہ کہ عہد توڑا بلکہ تمہارے دین کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا تو ان سے جنگ کرو۔ فَقَاتِلُوْھُمْ کی بجائے (فَقَاتِلُوْٓا اَءِمَّۃَ الْکُفْرِ ) فرمایا۔ اس سے تمام مشرکین قریش مراد ہیں جو پورے عرب کے مشرکوں کے سرغنے بنے ہوئے تھے نہ ایمان قبول کرتے تھے اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیتے تھے اور قبائل عرب نے انہیں اپنا مقتدیٰ بنا رکھا تھا جو اس انتظار میں تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہوں گے تو ہم بھی مسلمان ہوجائیں گے یا (اَءِمَّۃَ الْکُفْرِ ) سے قریش کے سردار مراد ہیں جیسے ابو جہل اور سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن أبی جہل اور ابو سفیان بن حرب وغیر ہم، حضرت ابن عباس ؓ نے اسی کو اختیار فرمایا۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ آیت قریش مکہ کے سرداروں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے نقض عہد بھی کیا اور رسول اللہ ﷺ کو مکہ معظمہ سے جلا وطن کرنے کا مشورہ بھی دیا جبکہ دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے (اِنَّھُمْ لَآ اَیْمَانَ لَھُمْ ) (ان کی قسمیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں) (لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَ ) تم ان سے جنگ کرو تاکہ یہ تمہارے دین پر طعن کرنے اور مقابلہ میں جنگ کے لیے کھڑے ہونے سے باز آجائیں اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفر سے باز آجائیں۔ (معالم التنزیل ص 272 ج ببعض زیادۃ) قریش مکہ تو عہد توڑ چکے تھے پھر حرف شرط کے ساتھ ان کے عہد کو توڑنے کو کیوں ذکر فرمایا ؟ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نقض عہد پر قائم رہیں اور ایمان نہ لائیں تو ان سے قتال کرو۔ احقر کے ذہن پر یہ وارد ہوا ہے کہ جملہ شرطیہ لا کر آئندہ آنے والوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قریش مکہ تو عہد توڑ ہی چکے ہیں ان کے علاوہ آئندہ بھی کافروں کی جو جماعت نقض عہد کرے اور تمہارے دین میں طعن کرے ان سے جنگ کرنا اور خاص کر کفر کے سرغنوں کو قتل کرنے کا اہتمام کرنا۔ ان لوگوں کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایسے لوگوں سے قتال کرتے رہو گے تو وہ تمہارے دین میں طعن کرنے اور جنگ کرنے کی ہمت سے باز رہیں گے۔ علامہ نسفی نے مدارک التنزیل میں لکھا ہے کہ جب کوئی ذمی دین اسلام میں علانیہ طور پر طعن کرے اس کا قتل جائز ہے کیونکہ عہد ذمہ میں یہ بات بھی ہے کہ اسلام پر طعن نہ کریں گے سو جب طعن کردیا تو اس نے اپناعہد توڑ دیا اور عہد ذمہ سے نکل گیا۔ 1 ھ
Top