Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 15
وَ یُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَيُذْهِبْ : اور دور کردے غَيْظَ : غصہ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل (جمع) وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي : اور اللہ توبہ قبول کرتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا ہے
اور ان کے دلوں کی جلن کو دور فرمادے گا۔ اور اللہ جس کو چاہے توبہ نصیب فرمائے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
مزید فرمایا (وَ یُذْھِبْ غَیْظَ قُلُوْبِھِمْ ) اور اللہ ان کے دلوں کی جلن کو دور فرما دے گا۔ یہ جملہ اولیٰ پر عطف ہے اور اس کے مفہوم کی تاکید ہے اور اس میں اہل ایمان کی خوشی کو دوسرے الفاظ میں بیان فرما دیا ہے۔ جس سے مبالغہ مقصود ہے، مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان خوب زیادہ خوش ہوں گے۔ صاحب روح المعانی یہ بات لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اذہاب الغیظ شفاء صدور سے زیادہ ابلغ ہے اور یہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے یوں بھی فرمایا ہے کہ شفاء الصدور فتح مکہ کے وعدہ سے ہوگیا اذھاب الغیظ فتح مکہ سے ہوگیا لیکن صاحب روح المعانی اس قول سے راضی نہیں۔ اس کے بعد فرمایا (وَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ ) (اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے توبہ نصیب فرمائے) تمہیں جو حکم ہوا ہے وہ کرو۔ تمہارا کام قتال ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں جو کچھ ہے وہ بھی واقع ہوگا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اسلام کی توفیق دے گا اور کفر چھوڑنے پر جو ان کی توبہ قبول فرمائے گا یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فضل ہے۔ وہ جس پر چاہے اپنا فضل فرما دے جسے اسلام کی نعمت سے نوازنا ہوگا وہ تمہارے مقابل صف آرا ہو کر بھی بچ کر نکل جائے گا اور اسلام قبول کرلے گا۔ جیسا کہ ابو سفیان اور عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو جو مشرکین کے رؤساء تھے بعد میں مسلمان ہوگئے۔ (وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) اور اللہ جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ کون اسلام قبول کرے گا اور کون کفر پر مرے گا اور وہ حکیم بھی ہے، وہ اپنی حکمت کے موافق جس کو چاہے نواز دے۔ کسی کا اس میں دخل نہیں ہے۔ فائدہ : یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ مکہ تو 8 ھ میں فتح ہوچکا تھا اور سورة برأۃ 9 ھ میں نازل ہوئی۔ پھر ان آیات میں کون سے جہاد کی ترغیب دی گئی ہے ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صاحب روح المعانی ص 62 ج 10 لکھتے ہیں کہ سورة برأت کی ابتدائی آیات فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھیں اور یہ آیات اس سے پہلے نازل ہوچکی تھیں 1 ھ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد اور نصرت کی خوشخبری دی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اہل کفر سے جو تمہیں تکلیف پہنچے گی اور ان کی شرارتوں کی وجہ سے جو تمہارے دل میں غیظ و غضب ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو دور کر دے گا اور تمہاری مدد فرمائے گا اور کافروں کو ذلیل کرے گا اور تمہارے دلوں کو کافروں کی ذلت دکھا کر شفا عطا فرمائے گا۔ جس طرح اہل مکہ میں قتال کے لیے بعض چیزیں جمع ہوگئی تھیں کہ انہوں نے اپناعہد توڑا اور تمہارے دین میں طعن کیا اور رسول اللہ ﷺ کو جلا وطن کرنے کا مشورہ کیا اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کی پہل کی اس طرح کی بہت سی باتیں آئندہ بھی کافروں کی طرف سے پیش آسکتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ تو تمہارے درمیان نہ ہوں گے۔ کیونکہ وہ دنیا سے تشریف لے جا چکے ہوں گے اور ان کے بعد کوئی نبی اور رسول بھی نہیں لیکن اس طرح کے واقعات پیش آسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو ان سے لڑو تاکہ کافر ذلیل و خوار ہوں اور تمہارے دل ٹھنڈے ہوں۔ خطاب کا رخ حضرات صحابہ کو ہے لیکن عموم خطاب میں سب مسلمان داخل ہیں۔
Top