Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 41
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
نکل کھڑے ہو ہلکے ہونے کی حالت میں اور بھاری ہونے کی حالت میں، اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
غزوۂ تبوک میں مومنین مخلصین کی شرکت اور منافقین کی بےایمانی اور بد حالی کا مظاہرہ جب تبوک چلنے کے لیے حکم ہوا تو مسلمان بھاری تعداد میں آپ کے ہمراہ چلنے کے لیے تیار ہوگئے، اور جن کو کچھ تردد ہوا تھا بعد میں وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ کچھ لوگ مریض تھے وہ اپنی مجبوری کی وجہ سے نہ جاسکے اور کچھ لوگ منافق تھے جن کے دو فریق تھے۔ ایک فریق تو وہ تھا جس نے جھوٹے عذر پیش کر کے آپ سے اس بات کی اجازت لے لی کہ آپ کے ساتھ نہ جائیں۔ اور اس وقت ان کا نفاق بالکل کھل کر سامنے آگیا اور منافقین کا دوسرا فریق وہ تھا جو جاسوسی کے لیے اور شرارت کرنے کے لیے ساتھ ہو لیا تھا۔ ان کی باتوں کا تذکرہ اسی سورت میں آ رہا ہے (انشاء اللہ تعالیٰ ) (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا) میں اول تو مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ ہلکے ہو یا بھاری ہو اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہو، اور اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرو۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھتے ہو۔ (خِفَافًا وَّ ثِقَالًا) کا ترجمہ تو یہی ہے جو اوپر مذکور ہوا (یعنی ہلکے اور پھلکے) لیکن اس کا مصداق بتاتے ہوئے مفسرین نے متعدد اقوال لکھے ہیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ صحیح اور مریض ہونا مراد ہے اور بعض حضرات نے مالدار اور تنگدست ہونا مراد لیا ہے اور بعض حضرات نے بوڑھا اور نو عمر ہونا اور بعض حضرات نے موٹاپا اور دبلاپن مراد لیا ہے، چونکہ الفاظ میں ان سب باتوں کی گنجائش ہے اس لیے سبھی کو مراد لیا جاسکتا ہے لیکن ثِقَالاً سے مریض مراد لینا محل نظر ہے کیونکہ مریض عذر شرعی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے خروج کا حکم کیسے ہوا ؟
Top