Anwar-ul-Bayan - Yunus : 39
بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَ لَمَّا یَاْتِهِمْ تَاْوِیْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِمَا : وہ جو لَمْ يُحِيْطُوْا : نہیں قابو پایا بِعِلْمِهٖ : اس کے علم پر وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَاْتِهِمْ : ان کے پاس آئی تَاْوِيْلُهٗ : اس کی حقیقت كَذٰلِكَ : اسی طرح كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَانْظُرْ : پس آپ دیکھیں كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کے علم پر یہ قابو نہیں پاسکے اس کو (نادانی سے) جھٹلا دیا اور ابھی اس کی حقیقت ان پر کھلی ہی نہیں۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے تکذیب کی تھی سو دیکھ لو کہ ظالموں کا کیسا انجام ہوا ؟
(10:39) بل۔ بلکہ (ملاحظہ ہو 2:135) آیۃ ہذا میں اس کا استعمال ماقبل کے ابطال کے لئے ہے کہ ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ یہ کلام من گھڑت اور خود ساختہ ہے (ام یقولون افترہ) اور مابعد کے اثبات کے لئے کہ (حقیقت یہ ہے) وہ اس کلام کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے اور نہ ہی اس کلام کا انجام (جس کی وہ خبر دیتا ہے) ابھی تک ان کے سامنے آیا ہے۔ کذبوا بما لم یحیطوا بعلم۔ کذبوا۔ ماضی جمع مذکر غائب انہوں نے جھٹلایا (باب تفعیل) ب تعدیہ کے لئے ہے اس صورت میں مطلب ہوگا۔ کذبوا ب انہوں نے جھٹلایا اور اس سے اگلا جملہ مالم یحیطوا بعلم مفعول ہوگا۔ انہوں نے جھٹلایا (اس کلام کو) جس کے علم کو وہ احاطہ ادراک میں نہ لاسکے (ہ ضمیر القرآن کے لئے ہے) ما موصولہ ہے لم یحیطوا مضارع نفی جحد بلم بمعنی ماضی۔ انہوں نے احاطہ نہ کیا۔ وہ حاوی نہ ہوئے۔ انہوں نے پوری طرح نہ جانا۔ علمہ مضاف ۔ مضاف الیہ۔ اس کے علم کو (یعنی قرآن حکیم کے جملہ علوم کو) یعنی اس چیز (قرآن حکیم) کو جسے وہ پوری طرح نہ جان سکے۔ انہوں نے جھٹلادیا۔ اس کا انکار کردیا۔ یا انہوں نے تکذیب کی اس چیز کی جس کے معارف پر وہ مکمل آگہی ھاصل نہ کرسکے۔ لما۔ حرف نفی۔ لما سے جس نفی کا حصول ہوتا ہے وہ زمانہ حال تک ممتد۔ مسلسل ہوتی ہے۔ (ابھی تک نہیں) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو (2:214) ۔ تاویلہ۔ تاویل (تفعیل) اول سے مشتق ہے جس کا معنی کسی چیز کا اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے کے ہیں۔ اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل کہتے ہیں (یعنی جائے باز گشت) کہا جاتا ہے۔ لوٹ آنے کی جگہ۔ جائے پناہ۔ بل لہم موعد لن یجدوا من دونہ موئلا (18:58) بلکہ ان کے لئے ایک مقررہ وقت ہے بدوں جس کے وہ کوئی پناہ گاہ نہ پائیں گے۔ پس تاویل کسی چیز کو اس کی غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے۔ چناچہ غایت علمی کے متعلق فرمایا۔ وما یعلم تاویلہ الا اللہ (3:6) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ غایت عمل کے متعلق ہے ہل ینظرون الا تاویلہ یوم یاتی تاویلہ (7:53) کیا اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وہ عملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی۔ آیۃ ہذا میں اسی عملی غایت کی طرف اشارہ ہے یعنی ابھی تک وہ اجر و ثواب یا سزا و عذاب جس کا ذکر قرآن حکیم میں ہوا ہے پردہ غیب میں مستور ہے اور ابھی تک اس کا وقوع نہیں ہوا۔ اور ترجمہ آیت ہذا کا ہوگا جس کی حقیقت یا انجام کار ابھی تک ان پر ظاہر بھی نہیں ہوا۔
Top