Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 52
وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَهُ الدِّیْنُ وَاصِبًا١ؕ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ
وَلَهٗ : اور اسی کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَهُ : اور اسی کے لیے الدِّيْنُ : اطاعت و عبادت وَاصِبًا : لازم اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَتَّقُوْنَ : تم ڈرتے ہو
اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے۔ تو تم خدا کے سوا اوروں سے کیوں ڈرتے ہو ؟
(16:52) واصبا۔ اسم فاعل واحد مذکر منصوب۔ دوامی ۔ ہمیشہ۔ جاودانی۔ لازوال۔ قائم رہنے والا۔ الدین ضمیر کا حال ہے۔ یہاں الدین سے مراد اطاعت ہے۔ ولہ الدین واصبا ط۔ اطاعت ہمیشہ اسی کو سزاوار ہے۔ واصبا وصوب سے مشتق ہے۔ (باب ضرب) اور اگر بذریعہ علی مصدر سمع ہو تو بیمار ہونا کے معنی ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں پہلے معنی ہی میں مستعمل ہے۔ افغیر اللہ تتقون (تو کیا اللہ کے سوا غیروں سے ڈرتے ہو) میں الف استفہامیہ ہے اور تعجب اور توبیخ کے لئے ہے۔ معنی یہ ہیں کہ : کیا اس ذات حق سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت کے علم کے باوجود اور اس علم کے باوجود کہ وہی حاجت روا ہے تم دوسرے معبودانِ باطل سے ڈرتے ہو ؟
Top