Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 8
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا
عَسٰي : امید ہے رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَنْ : کہ يَّرْحَمَكُمْ : وہ تم پر رحم کرے وَاِنْ : اور اگر عُدْتُّمْ : تم پھر (وہی) کرو گے عُدْنَا : ہم وہی کرینگے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے حَصِيْرًا : قید خانہ
امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے، اور اگر تم پھر وہی (حرکتیں) کرو گے تو ہم بھی وہی (پہلا سا سلوک) کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے
(17:8) عسی ربکم ان یرحمکم۔ (عجب نہیں کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے) یہ خطاب ان اسرائیلیوں سے ہے جو قرآن کے معاصر اور براہ راست مخاطب تھے۔ اس سے قبل ان تبتم عن المعاصی وتؤمنوا باللہ وبرسولہ (محمد ﷺ ) محذوف ہے یہ اس جملہ شرطیہ کا جواب ہے عسی ربکم ان یرحمکم۔ ان عدتم۔ یہ جملہ شرطیہ ہے اگر تم سرکشی کی طرف دوبارہ پھرے۔ عدنا۔ جوابِ شرط۔ تو (اس کی سزا و عذاب دینے کے لئے) ہم بھی دوبارہ (ایسا ہی) کریں گے (جیسا کہ پہلے تمہیں سزا دی تھی) عاد یعود عود (باب نصر) پھر آنا۔ پھر کرنا۔ کسی چیز سے ہٹ جانے کے بعد پھر اس کی طرف لوٹنا۔ یہاں ماضی بمعنی مستقبل ہے۔ یعنی اگر تم سرکشی کی طرف دوبارہ پھر تو پھر ہم بھی دوبارہ سزا دہی کی طرف رجوع کریں گے۔ حصیرا۔ زندان خانہ۔ قید خانہ ۔ بندی خانہ۔ حصر سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ بمعنی فاعل بھی ہوسکتا ہے کیونکہ قید خانہ روکنے والا ہوتا ہے اور بمعنی مفعول بھی کیونکہ وہ رکا ہوا ہوتا ہے۔
Top