Anwar-ul-Bayan - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
اور تم میں سے کوئی (شخص) نہیں مگر اسے اس پر گزرنا ہوگا۔ یہ تمہارے پروردگار پر لازم اور مقرر ہے۔
(19:71) وان منکم الا واردھا۔ میں ان نافیہ ہے منکم میں ضمیر جمع مذکر حاضر کا مرجع یا تو جمیع الناس ہیں یا وہ کفار جن کا ذکر اوپرہوا ہے۔ اوپر ان کفار سے جمع مذکر غائب کے صیغہ میں خطاب ہو رہا تھا۔ اب صیغہ جمع مذکر حاضر استعمال ہوا ہے۔ یہ التفات ضمائر اسلوب قرآن ہے۔ واردھا میں ضمیر واحد مؤنث غائب جہنم کے لئے ہے۔ و درود کے متعلق بھی اختلاف ہے کہ آیا اس سے مراد جہنم میں داخل ہونا ہے یا اس پر سے گذر جانا مراد ہے۔ ہر دو صورت ممکن ہیں اگر اول الذکر معنی مراد لئے جائیں تو بھی درست ہے اس صورت میں جہنم کی آگ مؤمنوں کے لئے ٹھنڈی اور بےضرر ہوجاوے گی۔ جس طرح حضرت ابراہیم پر ہوئی تھی۔ اور اگر مؤخر الذکر معنی لئے جاویں تو صراط علی جہنم جسے پل صراط کہا جاتا ہے اس پر سے مومن بلا ضرر تیزی سے گذر جاویں گے اور جہنمی جہنم میں گرجائیں گے۔ یا اس کی تیسری صورت یہ بھی ہے کہ وارد سے مراد نہ ہی داخلہ ہے اور نہ ہی اوپر سے گذرنا بلکہ محض جہنم تک پہنچنا یا وہاں سے گذر ہونا مراد ہے۔ کان۔ ای کان ورودہم۔ حتما۔ ضرور۔ لازم۔ قضاء مقدر یعنی طے شدہ فیصلہ۔ حتم الشیء علیہ۔ واجب کرنا۔ مقضیا۔ اسم مفعول ۔ قضاء مصدر۔ فیصلہ شدہ۔ مقرر۔ کان علی ربک حتما مقضیا۔ ای کان ورودہم واجبا۔ اوجبہ اللہ تعالیٰ علی نفسہ وقضی بہ۔ ان کا ورود لازمی امر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے اور اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یعنی یہ یقینی امر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے اور اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یعنی یہ یقینی امر ہے جو اللہ تعالیٰ کے اختیار و ارادہ سے ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ اور جگہ ارشاد ہے کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ (6:54) تیرے پروردگار نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ لازم کرلیا ہے۔
Top