Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
(2:11) واذا قیل لہم لا تفسدوا فی الارض۔ واؤ عاطفہ ہے۔ اذا شرطیہ، قیل ماضی مجہول واحد مذکر غائب ۔ قول (باب نصر) مصدر ، یہ کثیر المعانی لفظ ہے۔ اور قرآن مجید میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً بولنا، رائے، نظریہ، کسی کو کوئی بات الہام کرنا۔ حکم دینا۔ روایت کرنا وغیرہ۔ قیل اگرچہ ماضی کا صیغہ ہے لیکن قرآن مجید میں جس جگہ حرف شرط کے بعد آیا ہے وہاں مضارع کا ترجمہ کیا جائے گا۔ کہیں حال کا کہیں مستقبل کا ۔ کہا گیا۔ کہا جاتا ہے۔ کہا جائے گا۔ لا تفسدوا فی الارض، مقولہ نائب فاعل قیل کا ہے ۔ سارا جملہ جملہ فعلیہ ہوکر شرط ہے۔ اگلہ جملہ قالوا ۔۔ مصلحون تک ۔ اس شرط کی جزاء ہے۔ انما۔ یہ مرکب ہے ان اور ما۔ بیشک ۔ تحقیق۔ سوائے اس کے نہیں، ان حرف مشبہ بالفعل ہے اور ما کافہ ہے جو حصر کے لئے آتی ہے اور ان کو عمل لفظی سے روک دیتی ہے۔ مصلحون ۔ اسم فاعل جمع مذکر، درست اعمال کرنے والے ، نیک، اصلاح کرنے والے، بگاڑ کرنے والے۔
Top