Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا تو تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کردیا اور تم دیکھ ہی تو رہے تھے
(2:50) واذ۔۔ ملاحظہ ہو (2:49) فرقنا۔ ماضی جمع متکلم ہم نے پھاڑ دیا، ہم نے الگ الگ کردیا۔ فوق مصدر بمعنی الگ الگ ہونا ۔ اسی سے فرقہ ہے جو جماعت سے الگ ہوگیا ہو۔ ب بمعنی ل ہے۔ واذ فرقنا بکم البحر۔ جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا فلق بھی قریب قریب انہی معنوں میں آتا ہے قرآن مجید میں ہے فانقلق فکان کل فرق کا الطود العظیم (6:63) تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ، گویا بڑا پہاڑ ہو البحر سے مراد بحیرہ قلزم ہے جسے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم نے مصر سے ہجرت کے وقت طے کیا تھا۔ فانجینکم ۔ ن تعقیب کی ہے انجینا ماضی کا صیغ جمہ متکلم ۔ انجاء (افعال) مصدر نجو مادہ۔ بچالینا ، نجات دینا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ پس ہم نے تم کو بچا لیا دریا میں ڈوبنے سے، یا فرعون اور اس کی فوج کے ہاتھوں پکڑے جانے سے۔ وانتم تنظرون ۔ جملہ حالیہ ہے اغرقنا سے ۔ درآں حالیکہ تم ان کا غرق ہونا دیکھ رہے تھے۔
Top