Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ نے لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ يَاْمُرُكُمْ : حکم دیتا ہے تم کو اَنْ : یہ کہ تَذْبَحُوْا : تم ذبح کرو بَقَرَةً : ایک گائے قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَتَتَّخِذُنَا : کیا تم کرتے ہو ہم سے ھُزُوًا : مذاق قَالَ : اس نے کہا ( موسیٰ ) اَعُوْذُ : میں پناہ مانگتا ہوں بِاللّٰهِ : اللہ کی (اس بات سے اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہلوں میں سے
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو وہ بولے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو ؟ (موسیٰ نے) کہا کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں
(2:67) ان تذبحوا۔ ان مصدر یہ ہے۔ تذبحوا مضارع منصوب بوجہ عمل ان صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ذبح (باب فتح) مصدر سے کہ تم ذبح کرو۔ اتتخذنا ھزوا ہمزہ استفہامہ تتخذ مضارع واحد مذکر حاضر۔ اتخاذ (افعال) مصدر سے تو بناتا ہے۔ تو پکڑتا ہے نا ضمیر مفعول جمع متکلم ۔ ھزوا مفعول ثانی۔ مصدر باب فتح۔ بمعنی اسم مفعول ۔ جس کا مذاق اڑایا جائے۔ مسخرا۔ کیا تو ہمارا مذاق اڑاتا ہے۔ اعوذ۔ مضارع واحد متکلم عوذ (باب نصر) مصدر سے۔ جس کا معنی دوسرے سے التجاء کرنا اور پناہ مانگنا ہے میں پناہ چاہتا ہوں باللہ اللہ کی۔ ان اکون ۔ ان مصدریہ اکون مضارع منصوب واحد متکلم ۔ کون (باب نصر) مصدر سے، کہ میں ہوجاؤں۔ الجاہلین۔ جاہل کی جمع بحالت جر اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر حاضر، جہالت تین قسم پر ہے (1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں (2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتماد کرلینا (3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہیے اس کے خلاف سر انجام دینا۔ عام اس سے کہ اس کے متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط۔ اسی لحاظ سے آیت ہذا میں ھزوا کو جہالت قرار دیا ہے۔ جہالت کے معنی ناواقفیت کے بھی ہوسکتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : یحسبھم الجاہل اغنیاء من التعفف (2:273) نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے۔
Top