Tafheem-ul-Quran - An-Najm : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور یہی (ہوشمندی اور حکم و علم کی نعمت)ہم نے ایوبؑ 76 کو دی تھی۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ”مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تُو ارحم الراحمین ہے۔“ 77
سورة الْاَنْبِیَآء 76 حضرت ایوب کی شخصیت، زمانہ، قومیت، ہر چیز کے بارے میں اختلاف ہے۔ جدید زمانے کے محققین میں سے کوئی ان کو اسرائیلی قرار دیتا ہے، کوئی مصری اور کوئی عرب۔ کسی کے نزدیک ان کا زمانہ حضرت موسیٰ سے پہلے کا ہے، کوئی انہیں حضرت داؤد و سلیمان کے زمانے کا آدمی قرار دیتا ہے، اور کوئی ان سے بھی متاخر۔ لیکن سب کے قیاسات کی بنیاد اس سِفْرِ ایوب یا صحیفہ ایوب پر ہے جو بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں شامل ہے۔ اسی کی زبان، انداز بیان، اور کلام کو دیکھ کر یہ مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں، نہ کہ کسی اور تاریخی شہادت پر۔ اور اس سِفْرِ ایوب کا حال یہ ہے کہ اس کے اپنے مضامین میں بھی تضاد ہے اور اس کا بیان قرآن مجید کے بیان سے بھی اتنا مختلف ہے کہ دونوں کو بیک وقت نہیں مانا جاسکتا۔ لہٰذا ہم اس پر قطعاً اعتماد نہیں کرسکتے۔ زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد شہادت اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ یسعیاہ نبی اور حزقی ایل نبی کی صحیفوں میں ان کا ذکر آیا ہے، اور یہ صحیفے تاریخی حیثیت سے زیادہ مستند ہیں۔ یسعیاہ نبی آٹھویں صدی اور حزقی ایل نبی چھٹی صدی قبل مسیح میں گزرے ہیں، اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ حضرت ایوب ؑ نویں صدی یا اس سے پہلے کے بزرگ ہیں۔ رہی ان کی قومیت تو سورة نساء آیت 163 اور سورة انعام آیت 84 میں جس طرح ان کا ذکر آیا ہے اس سے گمان تو یہی ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے تھے، مگر وہب بن منَبّہ کا یہ بیان بھی کچھ بعید از قیاس نہیں ہے کہ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے عیسو کی نسل سے تھے۔ سورة الْاَنْبِیَآء 77 دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ " تو ارحم الراحمین ہے " آگے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں، کوئی عرض مدعا نہیں، کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرز دعا میں کچھ ایسی شان نظر آتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابر و قانع اور شریف و خود دار آدمی پے در پے فاقوں سے بےتاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ " میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں " آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے۔
Top