Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کردو کہ تمہاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور (دراز) راستوں سے چلے آتے ہوں (سوار ہو کر) چلے آئیں
(22:27) اذن۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تو پکار ۔ تو اعلان کر۔ تاذین (تفعیل) سے۔ الاذان ای الاعلام والاعلان۔ یاتوک۔ مضارع مجزوم (بوجہ جواب امر) جمع مذکر غائب ک واحد مذکر حاضر۔ وہ تیرے پاس آئیں گے۔ (یعنی اس گھر کی طرف آئیں گے جسے تو نے تعمیر کیا ہے یعنی بیت الحرام ۔ رجالا۔ پائوں چلتے ہوئے۔ پائوں پیادہ۔ راجل کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکاب۔ رجل سے مشتق ہے جس کے معنی پائوں کے ہیں۔ اسی مناسبت سے پائوں پیادہ کو راجل کہتے ہیں۔ یاتوک سے موضع حال میں ہے لہٰذا منصوب ہے۔ ضامر۔ اسم فاعل واحد مذکر ۔ دبلا۔ جس کی کمر پتلی ہو اور پیٹ بیٹھ گیا ہو۔ ضمور سے یہاں مراد سواری کا وہ جانور (اونٹ یا گھوڑا) جو دیر تک یا دور تک سواری دینے کے سبب دبلا ہوگیا ہو۔ مذکر ومؤنث دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ یاتین۔ مضارع جمع مؤنث غائب۔ وہ آئیں گی۔ ضامر کی صفت میں ہے یعنی جو دور دراز شاہراہوں سے آرہی ہوں گی (یاتین من کل فج عمیق) ۔ فج۔ الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں۔ اس کے بعد وسیع راستہ کے معنی استعمال ہونے لگا۔ اس کی جمع فجاج ہے۔ قرآن مجید میں ہے فیھا فجاجا سبلا (21:31) اس میں کشادہ راستے۔ عمیق۔ عمق سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے العمق کے معنی نیچے کی طرف دوری یعنی گہرائی کے ہیں۔ اس لئے بہت گہرے کنویں کو بئر عمیق کہتے ہیں۔ راستہ کی صفت ہو تو اس کے معنی دور دراز کے لئے جاتے ہیں۔
Top