Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 2
اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا
الَّذِيْ لَهٗ : وہ جس کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَمْ يَتَّخِذْ : اور اس نے نہیں بنایا وَلَدًا : کوئی بیٹا وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهُ : اس کا شَرِيْكٌ : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کیا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَقَدَّرَهٗ : پھر اس کا اندازہ ٹھہرایا تَقْدِيْرًا : ایک اندازہ
وہی کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا
(25:2) لہ۔ میں لام اختصاص کے لئے ہے۔ خاص اسی کے لئے ۔ بلا شرکت غیرے۔ ملک۔ بادشاہت ۔ سلطنت۔ لم یتخذ۔ مضارع نفی حجد بلم مجزوم بوجہ عمل لم۔ اتخاذ (افتعال) مصدر۔ اس نے نہیں بنایا۔ اس نے قرار نہیں دیا۔ ولم یتخذ ولدا۔ اور نہیں بنایا اس نے (کسی کو اپنا) بیٹا۔ ای لم ینزل احدا منزلۃ الولد۔ کسی کو بطور پسر نہیں ٹھہرایا۔ یہ جملہ، جملہ ماقبل (الذی لہ ملک السموت والارض) پر معطوف ہے۔ اسی طرح جملہ ولم یکن لہ شریک فی الملک اور جملہ وخلق کل شیء اور جملہ فقدرہ تقدیرا کا عطف اسی جملہ (الذی لہ ملک السموت والارض) پر ہے۔ قذرہ۔ ماضی واحد مذکر غائب تقدیر (تفعیل) مصدر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع کل شیء ہے۔ القدر (ضرب) اور التقدیر (تفعیل) کسی چیز کی مقدار (کمیت) کو بیان کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ جیسے فقدرنا فنعم القدرون (77 : 23) پھر ہم نے اندازہ مقرر کیا اور ہم کیا ہی خوب اندازہ کرنے والے ہیں۔ اور واللہ یقدر اللیل والنھار (73:20) اور اللہ تعالیٰ رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اسی سے قدر بمعنی مقدور ۔ حیثیت ۔ بساط ہے۔ جیسے علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ (2: 236) یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق (دے) اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔ فقدرہ تقدیرا۔ پھر ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کردیا۔ باب تفعیل سے جب استعمال ہو تو معنی ہوتے ہیں سوچ سمجھ کر۔ پورے غوروخوض کے بعد۔ اور جب مصدر کو بھی تاکید کے لئے لایا جائے تو مطلب ہوگا کہ اس نے جو اندازہ مقرر کیا ہے اس میں کسی تغیر وتبدل کی گنجائش نہیں ہے (تا آنکہ خود اس قادر مطلق کی مشیت ایسا چاہے) ۔ اس آیت میں الذی (فی قولہ تعالیٰ تبارک الذی) کی مندرجہ ذیل صفات بیان کی گئی ہیں۔ (1) انہ ھو الذی لہ ملک السموت والارض۔ وہ وہ ذات ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے۔ (2) انہ لم یتخذ ولدا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ (3) انہ لا شریک لہ فی ملکہ۔ اس کی حکومت میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہے۔ (4) انہ خالق کل شیئ۔ وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ (5) انہ قدر کل شیء تقدیرا۔ اس نے ہر چیز کا جسے اس نے پیدا کیا ایک اندازہ مقرر کردیا ہے۔
Top