Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 84
حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَ لَمْ تُحِیْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
حَتّىٰٓ : یہانتک اِذَا جَآءُوْ : جب وہ آجائیں گے قَالَ : فرمائے گا اَكَذَّبْتُمْ : کیا تم نے جھٹلایا بِاٰيٰتِيْ : میری آیات کو وَلَمْ تُحِيْطُوْا : حالانکہ احاطہ میں نہیں لائے تھے بِهَا : ان کو عِلْمًا : علم کے اَمَّاذَا : یا۔ کیا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
یہاں تک کہ جب (سب) آجائیں گے تو (خدا) فرمائے گا کہ کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور تم نے (اپنے) علم سے ان پر احاطہ تو کیا ہی نہ تھا بھلا تم کیا کرتے تھے ؟
(27:84) جاء وا : ای جاؤا الی موقف السوال والجواب والمناقشۃ والحساب سوال و جواب حساب و کتاب کی جگہ۔ میدان حشر۔ قال : ای قال اللہ لہم۔ ولم تحیطوابھا علما۔ میں واؤ حالیہ ہے۔ لم تحیطوا ب۔ مضارع نفی جحد بلم۔ صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تم احاطہ میں نہیں لائے تھے۔ بھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب ایاتی کی طرف راجع ہے۔ علما تمیز ہے لم تحیطوا سے۔ سارا جملہ حالیہ ہے جملہ سابقہ سے۔ منکرین آیات کے انکار کی قباحت کی تاکید کے لئے یعنی تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا تھا درآں حالیکہ تم انہیں اپنے احاطہ علمی میں نہیں لائے تھے۔ یعنی بغیر کسی غور و فکر اور بغیر کسی تحقیق کے تم نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا۔ اما۔ یہ دو لفظوں سے مرکب ہے ایک ام منقطعہ سے اور دوسرے ما استفہامیہ سے۔ ام منقطعہ کے وہ معنی جو اس سے کبھی جدا نہیں ہوتے اضراب کے ہیں یعنی یہاں بمعنی بل آیا ہے اور یہاں اضراب کی وہ صورت ہے کہ پہلے حکم کو برقرار رکھ کر اس کے مابعد کو اس حکم پر اور زیادہ کردیا جائے ، یعنی تم نے بلا سوچے سمجھے بلا غور و فکر میری آیات کی تکذیب ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اور کیا کیا تم کام کرتے رہے۔ مثلاً انبیاء اور اہل ایمان کو آزار دیا جو تکذیب سے بھی بڑھ کر ہے اور اسی طرح اور اعمال کفریہ فسقیہ میں مبتلا رہے۔ ماذا۔ کیا چیز ہے۔ کیا ہے کنتم تعلمون (جو) تم کرتے رہے تھے۔ (اماذا۔ ام ما ذا)
Top