Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 31
وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ١ؕ یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ١۫ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ
وَاَنْ : اور یہ کہ اَلْقِ : ڈالو عَصَاكَ : اپنا عصا فَلَمَّا رَاٰهَا : پھر جب اس نے اسے دیکھا تَهْتَزُّ : لہراتے ہوئے كَاَنَّهَا : گویا کہ وہ جَآنٌّ : سانپ وَّلّٰى : وہ لوٹا مُدْبِرًا : پیٹھ پھیر کر وَّ : اور َمْ يُعَقِّبْ : پیچھے مڑ کر نہ دیکھا يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اَقْبِلْ : آگے آ وَلَا تَخَفْ : اور تو ڈر نہیں اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الْاٰمِنِيْنَ : امن پانے والے
اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دو جب دیکھا کہ وہ حرکت کر رہی ہے گویا کہ وہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر چل دئیے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (ہم نے کہا کہ) موسیٰ آگے آؤ اور ڈرو مت تم امن پانے والوں میں ہو
(28:31) الق : القاء (افعال) سے فعل امر واحد مذکر حاضر ۔ تو ڈال دے۔ تو (نیچے) پھینک دے القاء کے اصل معنی کسی شی کو اس طرح ڈالنے کے ہیں کہ نظر آتی رہے۔ پھر عرف عام میں اس کا استعمال ہر طرح کے ڈالنے کے متعلق ہونے لگا۔ عصا (عصو مادہ) تیری لاٹھی۔ اپنی لاٹھی۔ فلما راھا۔ اس سے قبل جملہ محذوف ہے ای فالقھا فصارت حبۃ تھتز ۔ فلما راھا تھتز۔ یعنی اس نے حکم خداوندی کی تعمیل میں عصا نیچے ڈال دیا تو وہ ایک سانپ کی شکل اختیار کر گیا اور سانپ کی طرح لہرانے لگا (جھومنے لگا) راھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع عصا ہے۔ تھتز۔ مضارع واحد مؤنث غائب اھتزاز افتعال ۔ الھز کے معنی کسی چیز کو ہلانے کے ہیں جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وھزی الیک بحذع النخلۃ (19:25) اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ اھتزاز (افتعال) کے معنی جھومنے۔ بل کھناے اور شادابی اور تروتازگی کی وجہ سے درخت کے ہلنے اور حرکت کرنے کے ہیں۔ مثلا کہتے ہیں اھتزت النبات سبزہ لہلہانے لگا۔ تھتز وہ ہلتی ہے وہ بل کھاتی ہے۔ یعنی حضرت موسیٰ نے دیکھا کہ ان کا عصا سانپ کی مانند جھوم رہا ہے اور بل کھا رہا ہے۔ کانھا۔ کان حرف مشبہ بالفعل ھا ضمیر واحد مؤنث غائب ۔ کان کا اسم گویا وہ۔ جان۔ ایک قسم کا سانپ۔ پتلا۔ باریک سانپ۔ ولی۔ ماضی واحد مذکر غائب تولیۃ (تفعی) مصدر۔ منہ موڑ ۔ پیٹھ دے کر بھاگا۔ مدیرا : ولی کی ضمیر فاعل کا حال ہے۔ پیٹھ موڑ کر بھاگنے والا۔ ادبار (افعال) سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ دبر سے مشتق ہے جس کے معنی پیٹھ کے ہیں ۔ جو قبل کی ضد ہے اور جگہ قرآن مجید میں ہے فلا تولوہم الادبار (8:15) تم ان سے پیٹھ نہ پھیرنا لم یعقب۔ مضارع نفی جحد بلم صیغہ واحد مذکر غائب تعقیب (تفعیل) مصدر عقب مادہ۔ بمعنی ایڑی۔ اعقاب جمع م قرآن مجید میں ہے ونرد علی اعقابنا (6:71) تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں۔ لم یعقب۔ وہ پیچھے نہ مڑا۔ اس نے پلٹ کر نہ دیکھا۔ یمودی۔ سے قبل تودی یا قیل مصدر ہے۔ اقبل۔ تو آگے آ۔ اقبال افعال سے جس کے معنی آگے آنے متوجہ ہونے یا رخ کرنے کے ہیں ۔ فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ امنین : امن سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بحالت نصب و جر۔ من والوں میں سے محفوظ۔ امن و امان میں۔
Top