Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 64
وَ قِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَ رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا یَهْتَدُوْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا ادْعُوْا : تم پکارو شُرَكَآءَكُمْ : اپنے شریکوں کو فَدَعَوْهُمْ : سو وہ انہیں پکاریں گے فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا : تو وہ جواب نہ دیں گے لَهُمْ : انہیں وَرَاَوُا : اور وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب لَوْ اَنَّهُمْ : کاش وہ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ : وہ ہدایت یافتہ ہوتے
اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ تو وہ انکو پکاریں گے اور وہ ان کو جواب نہ دے سکیں گے اور (جب) عذاب کو دیکھ لیں گے (تو تمنا کریں گے کہ) کاش وہ ہدایت یاب ہوتے
(28:64) ادعوا فعل امر جمع مذکر غائب ۔ دعوۃ مصدر (باب نصر) تم پکارو۔ تم بلاؤ۔ خطاب شریک ٹھہرانے والوں سے ہے۔ شرکاء کم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہمارے شرکاء یعنی تمہارے وہ معبودان باطل جب کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرایا تھا۔ فدعوھم۔ پس وہ ان کو پکاریں گے۔ لم یستجیبوا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ صیغہ جمع مذکر غائب۔ وہ جواب نہیں دیں گے ! ضمیر فاعل معبود ان باطل کی طرف راجع ہے عاوا العذاب۔ رأوا ماضی جمع مذکر غائب ۔ (یہاں ماضی بمعنی مستقبل ہے) وہ دیکھ لیں گے۔ ضمیر فاعل شریک ٹھہرانے والوں کی طرف راجع ہے۔ لو انھم کانوا یھتدون ۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) لو حرف تمنا ہے اور جملہ کا مطلب ہے تمنوا لو کانوا مھتدین۔ وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ ہدایت پانے والے ہوتے۔ (2) یہ جملہ معترضہ ہے اور لو حرف تمنا ہے کاش یہ لوگ ہدایت یافتہ ہوتے (دنیا میں) (3) یہ جملہ شرطیہ ہے اور لو شرطیہ ہے اور جواب لو محذوف ہے ای لوانھم کانوا فی الدنیا مھتدین مؤمنین لما رأو العذاب اگر یہ دنیا میں ہدایت یافتہ اور ایمان والے ہوتے تو (آخرت میں) یہ عذاب نہ دیکھتے۔
Top