Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ : اور اتار دیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو ظَاهَرُوْهُمْ : جنہوں نے ان کی مدد کی مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ : سے صَيَاصِيْهِمْ : ان کے قلعے وَقَذَفَ : اور ڈال دیا فِيْ : میں قُلُوْبِهِمُ : ان کے دل الرُّعْبَ : رعب فَرِيْقًا : ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرتے ہو وَتَاْسِرُوْنَ : اور تم قید کرتے ہو فَرِيْقًا : ایک گروہ
اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو انکے قلعوں سے اتار دیا اور انکے دلوں میں دہشت ڈال دی تو کتنوں کو تم قتل کردیتے تھے اور کتنوں کو قید کرلیتے تھے
(33:26) انزل ماضی واحد مذکر غائب انزال (افعال) سے اس نے اتارا اس نے نازل کیا۔ ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ الذین اسم موصول ظاھروھم : ظاھروا ماضی جمع مذکر غائب مظاھرۃ (مفاعلۃ) سے باہمی معاونت کرنا۔ پشتیبانی کرنا۔ ظاھروا میں ضمیر فاعل اسم موصول الذین کے لئے ہے۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ الاحزاب کے لئے ہے۔ من تبعیضیہ ہے اہل الکتب مضاف مضاف الیہ اہل یہود۔ الذین ظاھروہم من اہل الکتاب ۔ اہل کتاب میں سے وہ لوگ جنہوں نے دشمنوں کے جتھوں کی امداد کی تھی۔ یہ جملہ الذین کی نعمت میں جو انزل کا مفعول ہے۔ اور مراد اس سے بنو قریظہ ہیں جو اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ دوستی کے پابند تھے۔ لیکن کفار کا لشکر۔ اس کا طمطراق، امن کا سامان حرب دیکھ کر بنو نضیر (ایک اور یہودی قبیلہ) کے ایماء پر عہد شکنی کا ارتکاب کرکے لشکر کفار کے ساتھ مل گئے تھے۔ من صیاصیہم : من حرف جار ہے صیاصیہم مضاف مضاف الیہ۔ صیاصی صیصۃ کی جمع ہے بمعنی قلعہ۔ گڑھی، ہر وہ چیز جس کے ذریعہ تحفظ کیا جائے صیصۃ کہلاتی ہے۔ اسی اعتبار سے گائے کے سینگ اور مرغ کے خار کو بھی صٰصۃ بولتے ہیں۔ ص ی ص مادہ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب الذین کی طرف راجع ہے۔ مطلب یہ کہ :۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے قلعے سے باہر اتار لایا۔ (محاصرہ کے طول سے تنگ آکر وہ خود باہر آئے اور صلح کی چادر جوئی پر مجبور ہوگئے) قذف۔ ماضی واحد مذکر غائب قذف (باب ضرب) سے مصدر۔ قذف کے اصل معنی تیر کو دور پھینکنے کے ہیں۔ پھر تیر کی شرط کو ساقط کرکے دور پھینکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اسی بناء پر دور دراز کے شہر کو بلدۃ قذیفۃ بولتے ہیں قرآن مجید میں ہے ویقذفون من کل جانب دحورا (37:8) اور ہر طرف سے ان پر (انگارے) پھینکے جاتے ہیں پھر محض اتارنے یا ڈال دینے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ مثلا فاقذفیہ فی الیم (20:39) پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دو ۔ یہاں آیت ہذا میں بھی ڈالنے دہشت ڈال دی۔ مجازا گالی دینا۔ تہمت زنا لگانا کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔ فریقا۔ فریق، گروہ ، (منصوب بوجہ مفعول ہونے کے) ایک فریق کو۔ یہاں فریق سے مراد آدمیوں کا گروہ۔ لان القتل وقع علی الرجال (کیونکہ فیصلہ یہی ہوا تھا کہ بنو قریظہ کے بالغ مردوں کو قتل کردیا جائے) مفعول کو فعل سے مقدم بوجہ اعتناء و استعظام لایا گیا تقتلون۔ تم قتل کرتے ہو۔ تم قتل کرو گے۔ یہاں مضارع بمعنی حکایت حال ماضی آیا ہے (ایک فریق کو) تم نے قتل کردیا۔ تاسرون۔ تم اسیر کرتے ہو۔ تم قید کرتے ہو۔ اسر (باب ضرب) سے جس کے معنی قید میں باندھنے کے ہیں۔ مضارع بمعنی حکایت ماضی ۔ تم نے قید کرلیا۔ (اس میں عورتوں اور بچوں کو غلام بنانے کی طرف اشارہ ہے)
Top